سوال :
مفتی صاحب آپ سے ایک استفتاء عرض ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک قول مشہور ہے کہ بدن کہ جس حصہ پر استاذ کی مار لگے اس پر جہنم کی آگ اثر نہیں کرے گی یہ قول کہاں تک درست ہے؟ یا پھر جاہلانہ باتیں ہیں؟ تحقیق مطلوب ہے امید ہے کہ موقع پاکر جواب مرحمت فرمائیں گے۔
(المستفتی : زکریا، پالنپور)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بدن کے جس حصے پر استاد کی مار لگے گی وہ حصہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔ کسی نے بچوں کو صبر اور تسلی دینے کے لیے ایسا کہہ دیا ہوگا، ورنہ یہ حدیث نہیں ہے، بلکہ بچوں کو مارنے کے سلسلے میں اعتدال قائم رکھنا ضروری ہے، بلاضرورت مارنا یا حد سے زیادہ مارنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
قرآن وحدیث یا کسی معتبر کتاب میں ہمیں یہ بات نہیں ملی کہ جسم کے جس حصہ پر استاذ کی قمچی لگتی ہے، اس حصہ پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔ (رقم الفتوی : 156983)
جامعہ بنوریہ کراچی کا فتوی ہے :
تلاش اور تتبع کے باوجود مذکورہ بات ہمیں حدیث کی کسی بھی کتاب میں نہیں مل سکی؛ اس لیے اس کی نسبت آپ ﷺ کی طرف نہ کی جائے۔ (رقم الفتوی : 144001200415)
لہٰذا سوال نامہ میں مذکور بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1445
Alhamdulillah
جواب دیںحذف کریں