✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! شہر کے مضافات کی ایک وسیع مسجد کی ویڈیو واٹس اپ پر وائرل ہے جس میں امام صاحب نماز پڑھا رہے ہیں اور ان کی اقتداء میں صرف ایک مصلی نماز پڑھ رہا ہے۔ اس ویڈیو اور شہر میں مساجد کی تعمیر میں تعاون کے لیے لگائے جانے والے چندے کے بڑھتے ہوئے اسٹال دیکھنے کے بعد کچھ باتیں ذہن میں آرہی ہیں جسے آپ حضرات کی بصارتوں اور بصیرتوں کے حوالے کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لے سکے۔
محترم قارئین ! ہمارے شہر میں مساجد کی تعمیر میں تعاون کے لئے جمعہ کے دن شہر کی مشہور سڑکوں اور چوک چوراہوں پر صبح دس بجے کے آس پاس اسٹال لگایا جاتا ہے جو رات میں دس بجے کے آس پاس اٹھایا جاتا ہے جس میں لاؤڈ-اسپیکر کا بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ چند سالوں پہلے ہم نے اس پر ایک فتوی بھی لکھا تھا جو درج ذیل ہے، اس کے بعد ہم اس سلسلے میں مزید کچھ قباحتیں عرض کریں گے۔
فتوی ملاحظہ فرمائیں :
مسجد و مدرسہ کے بنانے اور اس کے اخراجات کی تکمیل کے سلسلے میں تعاون کرنا یا کروانا بڑا نیک عمل ہے، ہر مسلمان بقدر استطاعت اس میں حصہ لینا اپنی سعادت سمجھتا ہے، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چندے کی وصولی میں دن بدن بے احتیاطی اور شرعی حدود و قیود سے تجاوز پایا جارہا ہے، ایسے حالات میں آپ کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے جس پر شرعی رہنمائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مسجد و مدرسے کا کسی بھی درجہ میں تعاون کرنا ہر مسلمان اپنی سعادت سمجھتا ہے، لہٰذا نوجوانوں کے اس جذبہ کا فائدہ اٹھاکر بعض مساجد ومدارس کے ذمہ داروں نے علماء کرام سے مشورہ کئے بغیر ان نوجوانوں کو چندے کے اسٹال مع لاؤڈ-اسپیکر پر بٹھا دیا، یا پھر ان نوجوانوں نے ہی لاعلمی میں اس طریقہ کار کو اختیار کرلیا ہے۔
چوک چوراہوں پر چندے کے اسٹال جن میں لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال لازمی ہوتا ہے اگر اس کا شریعت مطہرہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں متعدد قباحتیں موجود ہیں، جن میں سرفہرست ایذائے مسلم کا گناہ لازماً پایا جاتا ہے، ظاہر ہے جب دن دن بھر کان پھاڑنے والے لاؤڈ-اسپیکر کے ذریعے مسلسل حمد، نعت اور دیگر اشعار پڑھے جائیں اور چندے کی اپیل کی جائے گی تو کوئی کب تک بشاشت کو باقی رکھ سکتا ہے؟ بلاشبہ ہر انسان کو اس سے تکلیف ہوگی، بالخصوص اطراف کے گھروں اور مساجد میں نماز، تلاوت، اور ذکر میں مشغول مسلمانوں اور مریضوں کو سخت ذہنی اذیت سے گذرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس طرح چندہ کرنے والے حضرات یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسجد و مدرسہ کا چندہ کرنا بلاشبہ اجرِ عظیم ہے لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو، اس لئے بغیر لاؤڈ-اسپیکر کے چندہ کیا جائے اس صورت میں جتنا چندہ جمع ہوجائے اسی پر اکتفاء کیا جائے، اس سے زیادہ کے آپ مکلف نہیں ہیں، زیادہ چندے کی امید پر شریعت کے دیگر اہم احکام کی پامالی قطعاً جائز نہیں ہے، ورنہ آپ کی نیکی برباد گناہ لازم آئے گا۔ بطور خاص یہ بھی ملحوظ رہے کہ ذمہ داران بلاضرورت اور معقول انتظام کے بغیر تعمیری کام شروع ہی نہ کریں۔
اسی طرح بچوں کے ذریعے چندہ کرانے کی صورت میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ بچے ناسمجھی کی وجہ سے کسی بھی راہ گیر سے لگ لپٹ کر چندے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے راہ گیر شرما حضوری میں چندہ دے دیتا ہے، اس طرح چندہ وصول کرنا شرعاً درست نہیں ہے، دوسرے یہ کہ بعض بچے تربیت کی کمی اور شعور کی ناپختگی کی وجہ سے چندے کی رقم میں خیانت بھی کر بیٹھتے ہیں جس کا مشاہدہ بھی ہے۔ یا پھر ٹریفک کی وجہ سے کسی سواری کی زد میں آکر خدانخواستہ ان کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا حتی الامکان بچوں سے مذکورہ کام لینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (فتوی مکمل ہوا)
بعض اسٹالوں میں عصر بعد سے ہی یہ اعلان ہونے لگتا ہے کہ پانچ ہزار ہونے میں چار ہزار باقی ہے، یعنی ابھی کئی گھنٹوں میں صرف ایک ہزار ہی چندہ ہوا ہے۔ اس طرح کے اعلانات سے بلاشبہ مسجد مدرسہ کی اہمیت کم ہوتی ہے اور بہت ہلکا پن محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ باتیں کوئی غیرمسلم سنے گا تو کیا سوچے گا؟
ان اسٹالوں میں آپ کو اناؤنسر عموماً پیشہ ور ملیں گے، جو اپنے فن کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں، ان میں ایک بندہ تو مفتی اسماعیل صاحب کی آواز میں اپیل کرکے راہ گیروں کو کنفیوز کرتا رہتا ہے، اسی طرح بعض پنڈالوں سے بھائی ابو سفیان ایم آر کی آواز آتی رہتی ہے، ہوسکتا ہے کوئی ان کی بھی نقل کرتا ہے یا پھر ان کی ریکارڈنگ چلائی جارہی ہوتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انہیں ایسے لوگوں پر کاپی رائٹ کا مقدمہ کرنا چاہیے۔ ☺️
ان چندوں کے اسٹالوں میں آپ کو ایک مخصوص طبقہ کے اسٹال بھی بڑی تعداد میں ملیں گے جو اپنے یہاں اجتماعی قربانی کے بینر پر یہ جملہ لکھنا نہیں بھولتے کہ اجتماعی قربانی صرف "فلاں فلاں" کے لیے، تو اپنے چندوں کے اسٹال میں یہ کیوں نہیں لکھتے اور اعلان کرتے ہیں کہ چندہ صرف "فلاں فلاں" دیں اور فلاں فلاں دور رہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پہلے سے موجود مساجد کے بغل میں ہی دوسری تین چار سو اسکوائر فٹ کی مسجد بنا لیتا ہے جہاں روزآنہ نماز سے زیادہ پابندی سے لاؤڈ-اسپیکر پر ان کے مخصوص پروگرام کا اہتمام ہوتا ہے جو اہلیان محلہ کے لیے گویا درد سر بن جاتا ہے۔
لہٰذا ہمارا کہنا یہی ہے کہ لاؤڈ-اسپیکر کی تیز آواز اور ٹرافک جام کرکے لوگوں کو تکلیف دے کر چندہ کرنے والا یہ سلسلہ مکمل طور پر بند کیا جائے اور ہمارے یہاں جو طریقہ پہلے سے رائج ہے اسی پر عمل کیا جائے مثلاً مساجد کی تعمیر میں خصوصی تعاون کرنے اور کروانے کی کوشش کی جائے، ایک فرد یا ایک فیملی کی طرف سے پوری مسجد کی تعمیر کا خرچ مل جائے اس کی کوشش کریں، شہر میں ایسی متعدد مساجد ہیں جو صرف ایک فرد یا ایک فیملی کی تعمیر کی ہوئی ہیں۔ اس میں شفافیت بھی رہتی ہے۔ اور باہر ملکوں اور شہروں میں اسی طرح عموماً مساجد تعمیر ہوتی ہیں، ہماری طرح چندے کے اسٹال آپ کو کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔
اسی طرح جمعہ کے دن دیگر مساجد سے تعاون کی اپیل کرکے وہاں سے چندہ وصول کرنا، اہلیانِ محلہ کی میٹنگیں لے کر انہیں ہفتہ واری یا ماہانہ ان کی بشاشت اور استطاعت کے مطابق ان سے تعاون کی درخواست کی جائے کیونکہ مسجد تعمیر کی اصل ذمہ داری اہلیانِ محلہ کی ہے۔ اور بستی غریب طبقہ کی ہے جہاں گھر کچے اور پترے کے ہیں تو وہاں گاؤں بھر سے چندہ کرکے مسجد پچاس لاکھ، ستر لاکھ اور ایک کروڑ کی بنانا ضروری نہیں ہے، بلکہ فی الحال بستی کی پوزیشن کے حساب سے پترے کی بنالی جائے تو کیا غلط ہوجائے گا؟ شہر میں ایسی بستیوں میں پچاسوں مساجد ایسی بنی ہوئی ہیں۔
بہت سے اہل خیر حضرات صرف مسجد میں بور کروانے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں، ایسا گمان ہوتا ہے کہ وہ صرف بور کروانے کو ہی صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں، جبکہ اخلاص کے ساتھ مسجد میں لگا ہوا آپ کا ایک ایک روپیہ ان شاءاللہ صدقہ جاریہ بنے گا۔ اس لیے آپ نے جو بور کروانے کا پیسہ رکھا ہوا ہے وہ آپ کسی زیرِ تعمیر مسجد میں لگادیں ان شاءاللہ آپ کو وہی ثواب ملے گا، اسی طرح بہت سے افراد دو پانچ لاکھ لے کر اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے مرحومین کے نام سے مسجد بن جائے تو انہیں بھی چاہیے کہ نئی مسجد کی کوشش کرنے کے بجائے ضرورت کی جگہوں پر زیر تعمیر مساجد میں یہ رقم لگا دیں تو آپ کو اور آپ کے مرحومین کو وہی ثواب ملے گا جو نئی مسجد کی تعمیر میں ملے گا۔ ان شاءاللہ
چندوں کے بڑھتے ہوئے اسٹال اور ویران مساجد دیکھنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ مساجد کی تعمیر میں ہم لوگ اعتدال سے آگے بڑھ چکے ہیں، کیونکہ جس مسجد کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہاں کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ اطراف میں بستی نہ ہونے اور کئی مساجد ہونے کی وجہ سے یہاں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہماری اہلیانِ شہر سے مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ نئی مساجد کی تعمیر اور تعمیر جدید کے سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں، ضرورت کی جگہوں پر ہی مساجد تعمیر کریں، مساجد کی تعمیر اور تزئین کاری سے زیادہ اس کی آبادی کی فکر کریں، نیز اس میں خدمت کرنے والے ائمہ، مؤذنین اور خادمین کی تنخواہوں کا معقول نظم کریں کہ یہ اصل دین اور کرنے کا کام ہے۔ ورنہ ہم پر یہ شعر صادق آئے گا کہ
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ترجیحات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
اکثر ایسی نعت پڑھنے لگتے ہیں جو گانوں کی طرز پر ہوتی ہےاور غیر شرعی غلو پایا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںگانوں کی طرز پر نعت نہیں بلکہ امام احمد رضا کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں
حذف کریںاور اس میں نہ تو سر ہوتا ہے نہ مطلب عقیدے کے مطابق ہوتا ہے
بہت بہترین اور اچھی تحریر ہے ماشاء اللّه ۔۔۔ اللّه آپ کے علم اور عمل میں بے انتہا برکتیں عطا فرمائے ۔۔۔۔ اور یہ تحریر بھی غیر جانب دار ہوکر لکھی گیی ہے۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںکسی مکتبہ فکر کو ایک جنرل استفتاء میں یوں کہنا مجھے مناسب نا لگا۔ یہ تو ایسا ہوگیا کہیں کا بخار کہیں نکل جانا۔ مطلب اچھی اصلاحی تحریر چل رہی تھی کے آپنے اس میں مسلک کا تڑکا لگا دیا۔ آپ کے فتاویٰ میں پہلی بار یہ اسلوب میری نظر سے گزرا۔
جواب دیںحذف کریںآپ ایک بات بتاؤ کہ دیگر مسلک کے حضرات ہفتے میں ایک دن چوک چوراہوں پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر پریشان کرتے ہیں مگر مفتی صاحب نے جس مکتبہ فکر کی بات کی ہی وہ تو ہر روز پریشان کرتے ہیں
حذف کریںتو اس میں غلط کیا کہا مفتی صاحب نے
بہت ہی عمدہ
حذف کریںماشاءاللہ مفتی صاحب یہ تحریر ہر کسی کو پڑھنا چاہئیے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت عمدہ اللہ ہر قسم کے شر اور فتنہ سے پوری امت کی حفاظت فرماۓ آمین
جواب دیںحذف کریں