قباحتیں اور گذارشات
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! جیسا کہ ہم سب کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ ہمارا شہر مسجدوں، میناروں اور مدرسوں کی کثرت کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ اور اس کی وجہ یہاں کے رہنے والوں میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا جذبہ ہے۔ یہاں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں لوگ اپنی حلال کمائی خرچ کرنا بڑی سعادت سمجھتے ہیں، جو بلاشبہ سعادت کی بات ہے۔ لیکن مساجد اور مکاتب کی تعمیر کا سلسلہ اب اعتدال سے آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کوئی بھی اُٹھتا ہے اور دو چار لاکھ روپے کا ایک زمین کا ٹکڑا خریدتا ہے، یا کوئی زمین طے کرکے اپنے مرحومین کے نام پر منسوب کرکے پھر اس کی بقیہ یا پھر پوری رقم کی ادائیگی اور اس پر تعمیری کام کے نام پر شہر بھر میں چندہ کرنا شروع کردیتا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ چندہ کے نام پر "لوگوں کی ناک میں دم کرنے کا کام شروع ہوجاتا ہے" تو غلط نہیں ہوگا۔
محترم قارئین ! ہمارے شہر میں مساجد اور مکاتب کی تعمیر میں تعاون کی ایک شکل طعامِ تعاون کا پروگرام بھی ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سو، دو سو اور پانچ سو والے ٹکٹ بنائے جاتے ہیں، اور قیمت کے اعتبار سے اس میں کھانے کا نظم کیا جاتا ہے، عموماً سو روپے ٹکٹ والے طعامِ تعاون پروگرام ہوتے ہیں جس میں تقریباً آدھا کلو پکا ہوا پلاؤ یا پھر رقم کے اعتبار مانڈہ سالن دیا جاتا ہے۔ کھانے میں لگنے والی تقریباً تمام اشیاء اصحاب خیر کی طرف سے عطیہ ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے مسجد یا مدرسہ کا اچھا خاصہ تعاون ہوجاتا ہے۔ یہ عمل فی نفسہ شرعاً جائز اور درست ہے۔ البتہ اس کے ٹکٹ فروخت کرنے میں سامنے والی کی بشاشت اور استطاعت دیکھنا بھی ضروری ہے۔ کسی کو بھی پکڑ پکڑ کر کئی کئی ٹکٹ تھما دینا اور پھر اس کی رضامندی جانے بغیر اس سے قیمت وصول کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ جانا شرعاً درست نہیں ہے۔ اسی طرح ٹکٹ فروخت کرنے میں یہ بے احتیاطی بھی کی جاتی ہے کہ بعض مساجد اور مدارس کے ذمہ داران کسی کلب اور ادارہ کے ممبران اور سوشل ورکروں سے مل کر انہیں بڑی مقدار میں ٹکٹ تھما دیتے ہیں، اب اگر بات ایک دو مسجد یا مدرسہ کی ہوتو ہر کوئی بشاشت سے یہ کام کردے گا، لیکن ہفتہ دو ہفتے میں الگ الگ مساجد اور مکاتب کے ذمہ داران اگر اداروں کے ممبران اور سوشل ورکروں کو بڑی مقدار میں ٹکٹ تھمانے لگے تو وہ کہاں سے اور کیسے یہ ٹکٹ فروخت کریں گے؟ پھر اگر کوئی بندہ دو چار مرتبہ الگ الگ مسجدوں کا ٹکٹ کسی صاحبِ خیر کے پاس لے کر جائے تو وہ انہیں ہی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے اور بعض تو ان سے کہہ بھی دیتے ہیں کہ کتنا کمیشن مل رہا ہے؟ یہ چیز للہ فی اللہ مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والے رضا کاران اور سوشل ورکروں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہیں۔ لہٰذا عوام کو بھی چاہیے کہ اگر آپ کو ٹکٹ نہیں لینا ہے تو انتہائی مہذب اور مؤدب انداز میں کہہ دیں کہ میں معذرت خواہ ہوں، فی الحال ٹکٹ نہیں لے سکتا ہے، اور اگر لینا ہے تو بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ ٹکٹ لے لیں، تب ہی آپ کو دنیا آخرت میں اس کا فائدہ دیکھنے کو ملے گا، ٹکٹ لانے والے کو کم زیادہ کہہ کر اس کی دل آزاری کرنا آپ کے لیے دنیا وآخرت میں وبال کا سبب بن جائے گا۔ متعدد افراد اور سوشل ورکروں کی طرف سے یہ بات آنے کی وجہ سے ہم نے اس موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ہے۔
فی الحال ہمارے یہاں ہونے والے طعامِ تعاون میں مزید قباحتیں یہ پیدا ہورہی ہیں کہ زیادہ رقم بچ جائے اس کے لیے ٹکٹ زیادہ فروخت کرکے کم کھانا بنوایا جارہا ہے، پھر معقول انتظام نہ کرکے ٹکٹ لے کر آنے والوں کو دیر دیر تک انتظار کروانا۔ معمول سے کم مقدار میں کھانا دینا، یا پھر کھانا ختم ہوجانے کی وجہ سے انہیں کھانا لیے بغیر ہی واپس ہونا۔ غریب پریوار والے یہ سوچ کر دو تین ٹکٹ لیتے ہیں تاکہ طعام تعاؤن والے دن ایک ٹائم یا دو ٹائم کا کھانا گھر کی مستورات کو پکانا نہ پڑے لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک مسجد کے پروگرام میں مانڈا سالن بنوایا گیا اور شاید رات میں بنوایا گیا تھا جو اگلے دن تقسیم کرنا تھا، ہوا یہ کہ مانڈا پورا مہک گیا تھا یعنی خراب ہوچکا تھا جسے پھینکنا پڑا۔ یہ ساری قباحتیں دن بدن طعامِ تعاون کے پروگرام پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔
اس لیے سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ تعمیر جدید کے نام پر اچھی خاصی عمارتوں کو شہید کرکے دوبارہ بنانے اور مکاتب کے نام پر بڑی بڑی عمارتوں کے بنانے کا جو سلسلہ دراز ہوتا چلا جارہا ہے وہ شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے، مساجد کی عمارتیں بوسیدہ ہوجائیں اور انتہائی ضرورت کے وقت ہی جدید تعمیراتی کام کیا جائے، اس میں بھی عمارت کو بہت زیادہ قیمتی بنانے کے بجائے اعتدال کے ساتھ کام کیا جائے، اور پہلے ہی مکمل منصوبہ بندی اور مشورہ کرلیا جائے ورنہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ حصہ تعمیر ہونے کے بعد ناموافق ہونے کی وجہ سے اسے توڑنے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ اور اس میں ماہر انجینئروں کی مدد لی جائے نہ کہ لاعلم ٹرسٹیان کو من مانی کرنا چاہیے، ورنہ کام بگڑنے کی صورت میں ان سے اللہ تعالیٰ کے یہاں سخت مؤاخذہ ہوگا۔
اسی طرح مکاتب کے لیے زمین خرید کر اس پر باقاعدہ عمارت وہ بھی مہنگی مہنگی تعمیرات کرنا محل نظر ہے، کیونکہ ہمارے شہر میں پچاسوں معیاری مکاتب بغیر کسی عمارت کے انتہائی فعالیت کے ساتھ جاری وساری ہیں۔ مکاتب کے لیے ہمارے یہاں مساجد اور اہل خیر حضرات کے مکانات بآسانی مہیا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کہ مکاتب کی زمین اور اس پر تعمیر کے نام پر شہر بھر چندہ کیا جائے اور بڑے بڑے طعامِ تعاون کے پروگرام کا انعقاد کیا جائے۔
ان شاءاللہ عنقریب مساجد کی تعمیر اور چندہ کرنے کے طریقے پر ایک مضمون لکھا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر کام احسن طریقے پر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں عقل سلیم کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
أهنئك علي جهدتك الجبارة
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ اس مضمون پر صاف الفاظ اور سلیقہ مندی سے مضمون آنے کی امید تھی جو آج آپ نے پوری کردی اللہ تعالیٰ علم وعمل مزید برکتیں عطاء فرمائے
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںمفتی بہت بہت شکریہ
ماشاءاللہ ماشاءاللہ 👍
جواب دیںحذف کریںمحترم مفتی صاحب۔
جواب دیںحذف کریںبہترین اور سلیس انداز میں آپ نے اس بڑھتے ہوئے معاملے پر ہماری رہنمائی کی ہے۔
جزاک اللہِ خیرا
اللہ سے دعا ہے کہ آپ کے قلم میں مزید نکھار پیدا کریں اور کلمہ حق کی ترویج و اشاعت میں عقابی عزم و استقلال عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں۔ما شاءاللہ بہت خوب مفتی صاحب۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںJo sadak par traffic kr ke chanda maangte hai unka kya....?
جواب دیںحذف کریںجناب مفتی صاحب السلام وعلیکم
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
بہت خوب
اللہ تعالیٰ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
اس مسئلہ کو آپ نے بہت ہی خوبصورتی سے تحریر کیا.... اور سڑک پر چارو سمت خطرناک ساؤنڈ والے اسپیکر لگا کر چندا مانگنے والے پر بھی کچھ لکھے کیونکہ جہاں پر چندہ ہوتا اس کے آس پاس رہنے والوں کیا تکلیف ہوتی ہیں اسپیکر کی وجہ سے انہیں لوگوں کو معلوم
جواب دیںحذف کریں