ہفتہ، 2 دسمبر، 2023

پنشن فروخت کرنے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ،مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید سرکاری ملازم (ٹیچر) تھا۔ اب وہ ریٹائر ہورہا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد اسے ہر ماہ تقریباً 41000 روپے پینشن ملے گی۔ اگر وہ اپنی پینشن کا %40 حصہ بیچتا ہے تو اسے ہر ماہ 16500 روپے کم ملیں گے، یعنی صرف 24750 روپے ملیں گے۔اور سرکار اسے یک مشت رقم تقریباً 16,57,000 روپے دے گی۔ 15 سال تک اس کی پنشن میں کٹوتی ہوتی رہے گی۔ یعنی 15 سال میں اسے تقریباً 29,00,000 روپے دینا ہوگے۔ یعنی 15 سال میں اسے 13,00,000 روپے زائد دینا ہوگے۔براہ کرم رہبری فرمائیں۔
نوٹ :  پینشن بیچنا لازمی نہیں ہے ۔ہر سال D.A میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
(المستفتی : زاہد سر، منماڑ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پنشن فروخت کرنے والے مسئلہ کے ہر پہلو پر غور کیا گیا، جو بات سمجھ میں نہیں آئی، اس کے بارے میں دوبارہ سوال کیا گیا۔ پھر جو باتیں معلوم ہوئیں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پنشن کا فروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔ اس لیے کہ حکومت ہی پنشن دیتی ہے اور یہ اس کی طرف سے ہدیہ، انعام اور تعاون ہوتا ہے جس کا لینا بلاشبہ جائز ہے، لہٰذا اب اگر حکومت سے ہی یہ معاہدہ کرلیا جائے کہ بجائے ہر ماہ تعاون دینے کے یک مشت ہی دے دیا جائے اگرچہ کم ہو، تو یہ جائز ہے۔ یہ قرض بھی نہیں ہے، کیونکہ قرض ہوتا تو پندرہ سال کے درمیان پنشنر کے انتقال کے بعد بھی اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا جبکہ پندرہ سال کے دوران پنشنر کے انتقال کے بعد یہ معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
اگرسرکارہی وظیفہ دیتی ہے، اورسرکار ہی خریدے تو یہ محض صورۃً بیع ہے حقیقۃً بیع نہیں، بلکہ جو وظیفہ وہ ماہانہ دیتی ہے اس کے عوض اپنے تخمینہ سے برضا مندی وظیفہ خوار کویکمشت دے دیتی ہے، اس میں مضائقہ نہیں۔ (فتاوی محمودیہ : ٢٤/١٣٣)

محقق ومدلل جدید مسائل میں ہے :
پینشن ایک قسم کا انعام ہے، جب تک ملازم کا اس پر قبضہ نہ ہو وہ اس کا مالک نہیں بنتا، اس لیے اس کی بیع جائز نہیں۔ البتہ خود حکومت سے اس کی بیع کرنا حقیقت میں بیع نہیں ہے، بلکہ صرف نام و صورت کی بیع ہے،کہ حقیقۃً حکومت نے جو بڑا انعام قسط وار دینے کا وعدہ کیا ہے، اب اسی کو کم مقدار میں یکمشت دے رہی ہے، اس لیے حکومت سے یہ معاملہ جائز ہے۔ (محقق ومدلل جدید مسائل : ١/٢٩٦)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ صورتِ مسئولہ میں پینشن حکومت کو ہی فروخت کرنے والا معاہدہ جائز اور درست ہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ حکومت کے علاوہ کسی تھرڈ پارٹی کو پینشن فروخت کرنا جائز نہیں، اس لیے کہ اس میں قمار اور جوئے شکل پیدا ہو جائے گی۔

عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٢٣٥)

وَمِنْهَا فِي الْمَبِيعِ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا فَلَا يَنْعَقِدُ بَيْعُ الْمَعْدُومِ وَمَا لَهُ خَطَرُ الْعَدَمِ كَبَيْعِ نِتَاجِ النِّتَاجِ وَالْحَمْلِ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ وَأَنْ يَكُونَ مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مِلْكَ الْبَائِعِ فِيمَا يَبِيعُهُ لِنَفْسِهِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۳/۲)

وَتَأْوِيلُهَا أَنْ يَهَبَ الرَّجُلُ ثَمَرَةَ نَخْلَةٍ مِنْ بُسْتَانِهِ لِرَجُلٍ ثُمَّ يَشُقُّ عَلَى الْمُعْرِي دُخُولُ الْمُعْرَى لَهُ۔ (عنایہ شرح ہدایہ : ٦/٤١٥)

والثالث قول مالک المشہور : والعرایا عندہ أن یہب الرجل ثمرۃ نخلۃ، أو نخلات من حائط لرجل بعینہ ، ثم یتأذی بدخول الموہوب لہ في حائطہ لمکان أہل بیتہ في الحائط، فیجوز للواہب أن یشتري الثمار المعلقۃ من الموہوب لہ بخرصہا تمراً۔ (تکملۃ فتح الملہم : ۷/۳۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الاول 1445

2 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ۔۔ اللہ رب العزت آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
    مفتی صاحب ایک سوال ہے کہ کسی غیر مسلم جو کہ مریض یا ضرورت مند ہو اس کو صدقہ کی کچھ رقم دے سکتے ہیں کیا؟
    جواب عنایت فرمائیں۔۔ جزاک اللہ خیرا
    از : محمد عثمان۔ مالیگاؤں

    جواب دیںحذف کریں