سوال :
محترم مفتی صاحب ! ہمارے ایک دوست نے ہم سے ایک بات پوچھی ہے کہ ہیکل سلیمانی کیا ہے؟ کسے کہتے ہیں؟ یہودیوں کا اس سے متعلق کیا عقیدہ ہے؟ براہ کرم آپ کچھ رہنمائی فرما دیں۔
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرت داؤد علیہ السلام نے نبوت اور بادشاہت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کرانا شروع کی، اسی تعمیر کو ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کہا جاتا ہے، ہیکل کے معنی معبد یعنی عبادت گاہ کے ہی ہیں۔ جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے والد کی وصیت کے مطابق نہایت اہتمام اور شان سے مکمل کروایا، یہاں تک کہ اس کی تعمیر میں مضبوطی اور پائیداری کے لیے جنات سے بھی خدمت لی۔ چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس مسجدِ بیت المقدس کی تکمیل کی اور نمایاں وعظیم الشان تعمیرات آپ علیہ السلام نے کروائیں اس لیے اسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہیکلِ سلیمانی سے مراد وہی مسجدِ بیت المقدس ہے جس کی تعمیر کا ذکر قرآنِ مجید نے بھی کیا ہے، اور جو آج تک موجود ہے، جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کے موقع پر آسمانوں کے سفر کے لیے لے جایا گیا۔ اس کے علاوہ مزید کوئی خاص وضع کی تعمیر مراد نہیں ہے۔ جبکہ یہودیوں کا عقیدہ اور دعویٰ ہے کہ جہاں آج مسجد اقصیٰ کی چار دیواری ہے وہاں کسی زمانہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ عبادت گاہ تھی جو بعد میں منہدم ہوگئی۔ اب جبکہ صدیوں کی ذلّت سہنے اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہودی دوبارہ القدس پر قابض ہوگئے ہیں، اس لیے وہ یہاں ہیکل تعمیر کرکے اپنی اس مذہبی یادگار کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالٰی کی طرف سے پھٹکار کے سبب زمانے کے بھول بھلیوں میں ان سے گم ہوگئی تھی۔
معلوم ہونا چاہیے کہ عام طور پر جو یہ مشہور ہے کہ مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ جبکہ یہ بات صحیح نہیں ہے، بخاری شریف میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت موجود ہے کہ بیت اللہ اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا فاصلہ ہے اور کعبۃ اللہ کی تعمیر ابتدائے آفرینش میں حضرت آدم علیہ السلام نے بحکم الٰہی کی تھی (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہی کی قائم کردہ بنیادوں پر تعمیر نو کی تھی) اس حساب سے بیت المقدس کی اولین تعمیر سیدنا حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام سے بہت عرصہ قبل ہو چکی تھی۔ اس طرح یہودیوں کا یہ دعویٰ ہی سرے سے باطل ہوجاتا ہے کہ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے سب سے پہلے ہیکل (عبادت گاہ) تعمیر کی تھی، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کی تعمیر نو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی ہے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام سے صدیوں قبل یہاں ہیکل موجود تھا، القدس کی جو تاریخ آج کی انسانی دنیا کو معلوم ہے اس کے مطابق یہاں کنعانیوں اوریبوسیوں کے دور سے ہیکل تعمیر ہوتے چلے آرہے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بھی کئی مرتبہ یہاں نئی تعمیرات ہوئی ہیں، بعض مرتبہ تو زلزلہ یا حملہ آوروں کی لوٹ مار سے مکمل انہدام کے بعد بھی نئی تعمیر ہوئی ہے جو کبھی یہود کے جانی دشمنوں عیسائیوں اور کبھی مسلمانوں نے کی۔ تو یہودی کس کی وراثت کا دعویٰ کریں گے؟ ایک طویل عرصہ تو یہاں ایسا گزرا کہ یہاں تباہ شدہ ملبے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ (مستفاد : اقصی کے آنسو)
يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ۔ (سورہ سبا، آیت : ١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الآخر 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں