سوال :
محترم مفتی صاحب! ایصال ثواب کے لیے اجتماعی قرآن خوانی کا اہتمام کرنا کیسا ہے؟ بعض مساجد میں اعلان ہوتا ہے اور قرآن خوانی ہوتی ہے۔ برائے کرم مسئلہ کی وضاحت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عارف، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن پڑھ کر مرحومین کو ایصال ثواب کرنا اور بخشنا جائز و درست ہے۔ اس پر جمہور اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے، کسی بھی حدیث سے اس کی ممانعت ثابت نہیں ہے، جبکہ متعدد روایات سے مرحوم تک اچھے اعمال کا ثواب پہنچنا ثابت ہے، جس میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ لیکن مرحومین کے لیے مروجہ اجتماعی قرآن خوانی کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔
مفتی محمد سلمان منصورپوری لکھتے ہیں :
کوئی بھی شخص اگر خلوص کے ساتھ قرآن پڑھ کر میت کے لئے ایصال ثواب کرے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن مروجہ قرآن خوانی بہت سی خلافِ شرع باتوں کو شامل ہے، اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے اور رسومات سے بچتے ہوئے مرحومین کو ایصالِ ثواب کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
میت کے لیے ایصال ثواب جائز اور ثابت ہے لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے کوئی بھی نیکی اور عبادت کرکے ثواب میت کو بخش سکتا ہے، میت کے اہل خانہ و عزیز واقارب بھی قرآن پڑھ کر میت کو ایصال ثواب کرسکتے ہیں لیکن قرآن خوانی کا اجتماعی مروجہ طریقہ جس میں انتقال میت کے بعد مخصوص و متعین تاریخ یا دن میں لوگوں کو قرآن پڑھنے کے لیے جمع کیا جاتا ہے اور پڑھنے والوں کے لیے ناشتہ یا کھانا وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں روپیہ وغیرہ بھی دیا جاتا ہے، اور لوگ رسم و رواج کے دباوٴ میں یا شیرینی وغیرہ کے لالچ میں شریک ہوتے ہیں اور اس طریقے پر قرآن خوانی نہ کرانے کو برا مانتے ہیں تو اجتماعی قرآن خوانی کا یہ طریقہ شرعاً مکروہ ہے یہ طریقہ حدیث یا صحابہ سے ثابت نہیں، اس طریقے پر پڑھنے والے کو نہ ثواب ہوتا ہے نہ جس کے لیے پڑھا جارہا ہے، اس لیے ایصال ثواب کا جائز و درست طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور مکروہ طریقہ سے بچنا چاہئے۔ (رقم الفتوی : 609002)
حکیم الامت علامہ تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
جس طریق سے آج کل قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کیا جاتاہے یہ صورت مروجہ تو ٹھیک نہیں۔ ہاں احباب خاص سے کہہ دیا جائے کہ اپنے اپنے مقام پر حسب توفیق پڑھ کر ثواب پہنچا دیں۔ باقی اجتماعی صورت اس میں بھی مناسب نہیں چاہے تین بار قل ھو اللہ ہی پڑھ کر بخش دیں جس سے ایک قرآن کا ثواب مل جائے گا۔ یہ اس سے بھی اچھا ہے کہ اجتماعی صورت میں دس قرآن ختم کئے جائیں اس میں اکثر اہل میت کو جتلانا ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا، خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے۔ (انفاس عیسیٰ : ۱/۲۱۵)
معلوم ہوا کہ میت کے ایصالِ ثواب کے لیے مروجہ قرآن خوانی شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، (تدفین کے وقت اعلان کے ذریعے شرکاء سے درخواست کردینا کافی ہے کہ مرحوم کے لیے اپنے طور سے ایصالِ ثواب اور مغفرت کی دعا کردیں۔) یہی وجہ ہے کہ اکثر مساجد میں مروجہ قرآن خوانی کو بند کردیا گیا ہے، جہاں جاری ہے انہیں بھی حکمت سے بند کردینا چاہیے، اس کے بند کرنے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ میت کے اہل خانہ کو تدفین کے وقت ہی اس کا شرعی حکم اچھے انداز میں بتا دیا جائے تو وہ مان جاتے ہیں، ورنہ تدفین کے وقت اعلان ہوجانے کی صورت میں پھر اس سے منع کرنے میں نزاع اور فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے۔
عن معقل بن یسار رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إقراؤوہا علی موتاکم یعنی یٰس۔ (مسند أحمد بن حنبل، رقم : ۲۰۵۶۷)
وأما قرائة القرآن وإہداوٴہا لہ تطوعا بغیر أجرة فہذا یصل إلیہ کما یصل ثواب الصوم والحج۔ (کتاب الروح لابن القیم : ص ۲۱۱)
لا نزاع بین علماء السنة والجماعة فی وصول ثواب العبادات المالیة، والصواب أن الأعمال البدنیة کذلک۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیة : ۲۴/۳۶۶)
يُكْرَهُ لِلْقَوْمِ أَنْ يَقْرَءُوا الْقُرْآنَ جُمْلَةً لِتَضَمُّنِهَا تَرْكَ الِاسْتِمَاعِ وَالْإِنْصَاتِ الْمَأْمُورِ بِهِمَا، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣١٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الآخر 1445
Jazak Allah Mufti sahab
جواب دیںحذف کریںجزاك اللهُ
جواب دیںحذف کریںJazakallah khair Mufti sahab
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں