سوال :
مفتی صاحب ! کچھ لوگ ہوٹل میں ہی حرمین کے اماموں کی اقتداء میں فرض پڑھ لیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل کیسا ہے؟ اور ایسا کب اور کس صورت میں جائز ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالرقیب، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام کی اقتداء کے لیے شرط یہ ہے کہ مقتدی کا مکان (نماز کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ) امام کے مکان سے مختلف نہ ہو، بلکہ دونوں کا مکان متحد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صلاۃ خوف جس میں باقاعدہ ایک دوسرے کو دیکھنا ممکن ہوتا ہے، اس میں بھی دور سے دیکھ کر ایک ساتھ جماعت کرانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مقتدیوں کو امام کے پاس باقاعدہ چل کر جانا پڑتا ہے۔ تاہم اگر مسجد کے اندر یا مسجد کے صحن اور ملحقات میں صفوں کے درمیان خالی جگہ باقی رہ جائے اور امام نظر نہ آرہا ہوتو اس سے امام کی اقتدا باطل نہیں ہوتی، بلکہ نماز ہوجاتی ہے، کیونکہ مسجد اور اس کا صحن وغیرہ ایک مکان کے حکم میں ہیں۔ البتہ مسجد کے اطراف کی سڑکوں، عمارتوں کے زمینی حصہ اور اس کے کمروں میں امام کی اقتدا صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کی صفیں سڑکوں یا ان عمارتوں کے زمینی حصہ تک پہنچ جائیں، بصورتِ دیگر امام کی اقتدا سڑکوں پر صف بنا کر کرنا یا اطراف کی عمارتوں کے زمینی حصہ میں یا ہوٹل کے کمروں میں درست نہیں ہوگی، اس طرح حرمین کے ائمہ کی اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی، انہیں اپنی نماز دوہرانا پڑے گی۔ البتہ مسجدِ حرام ومسجد نبوی کے اطراف کی عمارتوں کے زمینی حصوں، سڑکوں اور دوکانوں سے امام کی اقتدا اس صورت میں صحیح ہوگی جب کہ مسجدِ حرام ومسجد نبوی کی صفیں انقطاعِ شرعی (یعنی صفوں کے درمیان طریقِ عام یا ایک بیل گاڑی گذرجانے کا فاصلہ نہ ہو) کے بغیر ان عمارتوں، دوکانوں اور سڑکوں سے مل جائیں۔
وَذَكَرَ فِي الْبَحْرِ عَنْ الْمُجْتَبَى: أَنَّ فِنَاءَ الْمَسْجِدِ لَهُ حُكْمُ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ قَالَ: وَبِهِ عُلِمَ أَنَّ الِاقْتِدَاءَ مِنْ صَحْنِ الْخَانْقَاهْ الشَّيْخُونِيَّةِ بِالْإِمَامِ فِي الْمِحْرَابِ صَحِيحٌ وَإِنْ لَمْ تَتَّصِلْ الصُّفُوفُ؛ لِأَنَّ الصَّحْنَ فِنَاءُ الْمَسْجِدِ، وَكَذَا اقْتِدَاءُ مَنْ بِالْخَلَاوِي السُّفْلِيَّةِ صَحِيحٌ؛ لِأَنَّ أَبْوَابَهَا فِي فِنَاءِ الْمَسْجِدِ إلَخْ، وَيَأْتِي تَمَامُ عِبَارَتِهِ. وَفِي الْخَزَائِنِ: فِنَاءُ الْمَسْجِدِ هُوَ مَا اتَّصَلَ بِهِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ طَرِيقٌ. اهـ. قُلْت: يَظْهَرُ مِنْ هَذَا أَنَّ مَدْرَسَةَ الْكَلَّاسَة وَالْكَامِلِيَّةِ مِنْ فِنَاءِ الْمَسْجِدِ الْأُمَوِيِّ فِي دِمَشْقَ؛ لِأَنَّ بَابَهُمَا فِي حَائِطِهِ وَكَذَا الْمَشَاهِدُ الثَّلَاثَةُ الَّتِي فِيهِ بِالْأَوْلَى، وَكَذَا سَاحَةُ بَابِ الْبَرِيدِ وَالْحَوَانِيتِ الَّتِي فِيهَا.... وَكَذَا لَوْ اصْطَفُّوا عَلَى طُولِ الطَّرِيقِ صَحَّ إذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْإِمَامِ وَالْقَوْمِ مِقْدَارُ مَا تَمُرُّ فِيهِ الْعَجَلَةُ، وَكَذَا بَيْنَ كُلِّ صَفٍّ وَصَفٍّ كَمَا فِي الْخَانِيَّةِ وَغَيْرِهَا۔ (شامی : ١/ ٥٨٥ - ٥٨٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03جمادی الاول 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں