جمعرات، 19 اکتوبر، 2023

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیسے کیا جائے؟


سوال :

محترم مفتی صاحب! بنا کسی تمہید کے عرض کرنا چاہوں گا کہ اسرائیلی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کے سلسلے میں اب مختلف آرائیں چل رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ انکے پروڈکٹس خریدو ہی مت۔ اس کے جواب میں کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ پروڈکٹس ہمارے مسلم دکاندروں کے پاس آ چکے ہیں اس لئے نہیں خریدنے سے انکا زبردست مالی نقصان ہو سکتا ہے۔اس لئے انہیں خرید کر ضائع کر دینا چائیے۔ کچھ کہتے ہیں کہ سامان مارکیٹ میں آ چکا ہے یعنی اسرائیل کے پاس پیسہ تو پہنچ چکا ہوگا۔ اگر خرید لئے ضائع کرنے کے لئے تو پیسہ تو ہمارا ضائع ہوگا نا۔ (جبکہ یہ علامتی بائیکاٹ رہے گا جسکی نیوز بنے گی اور ہو نا ہو میڈیا کے ذریعے اسرائیل تک پہنچ جائے کہ اسرائیلی پروڈکٹس کا فلاں فلاں مقامات پر بائیکاٹ کیا جا رہا ہے)۔ غرض کہ الگ الگ ذہنوں کی الگ الگ باتیں۔ محترم آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے سلسلے میں بنیادی بات جو سمجھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اس لیے کرنا ہے کہ انہیں مالی نقصان پہنچے، لہٰذا جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بائیکاٹ اسی وقت مؤثر اور مفید ہوگا جب اسرائیلی مصنوعات کا ہمارے یہاں آنا ہی بند ہوجائے، اور یہ کام عوام سے زیادہ مسلمان بیوپاریوں اور دوکاندار حضرات کے کرنے کا ہے، چنانچہ جب یہ حضرات خود ہی اس طرح کے پروڈکٹس نہیں خریدیں گے تو وہ مارکیٹ اور دوکانوں تک آئیں گے ہی نہیں۔ اور جب دوکانوں میں ہی یہ پروڈکٹس نہیں ملیں گے تو عوام کیسے خریدیں گے؟ لہٰذا مسلمان بیوپاریوں اور دکانداروں کو اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اگر خدانخواستہ غیرمسلم بیوپاریوں اور دکانداروں کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات مارکیٹ میں آجاتی ہیں تو اب عوام کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان مصنوعات کا حتی الامکان بائیکاٹ کریں۔

اسرائیلی پروڈکٹس خرید کر اسے ضائع کرنے والی بات عقلاً اور شرعاً دونوں طرح سے درست نہیں ہے، اس لیے کہ خریدنے کی صورت میں تو انہیں مالی فائدہ ہوگیا، اور اسرائیلیوں کے لیے یہی کافی ہے، اور اب اگر بائیکاٹ کے نام پر اس حلال اور پاک شئے کو ضائع کیا جائے گا تو یہ اسراف اور فضول خرچی میں شامل ہوگا۔ البتہ اگر کسی مسلمان بیوپاری اور دوکاندار نے اسرائیلی مصنوعات کو پہلے ہی خرید کر رکھ لیا ہے تو اب وہ اتنا اسٹاک فروخت کردے اور آئندہ مزید نہ خریدے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ بائیکاٹ بھی انہیں مصنوعات کا ممکن ہے جو ہمارے لیے ضروری نہیں ہیں یا پھر ان کا بدل ہمارے پاس موجود ہے، جن مصنوعات کا استعمال ہمارے لیے ضروری ہے، مثلاً ادویات وغیرہ اور ان کا بدل بھی ہمارے پاس نہیں ہے تو پھر ان کا بائیکاٹ کرنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا ہے جو شرعاً بھی پسندیدہ نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْحَرْبُ خَدْعَةٌ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٦٣٦)

قال في الہدایۃ : کل ذٰلک یکرہ ولا یفسد بہ البیع؛ لأن الفساد في معنی خارج زائد لا في صلب العقد ولا في شرائط الصحۃ۔ (الہدایۃ، کتاب البیوع / فصل فیما یکرہ ۳؍۵۱ إدارۃ المعارف دیوبند)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الآخر 1445

2 تبصرے: