سوال :
آج جبکہ شوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور دورہ ہے۔ بے حیائی اور عریانیت عام ہوتے جارہی ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ جوڑے بھی غیر محرموں سے سوشل میڈیا کے ذریعے تعلقات استوار کرکے نوجوان لڑکیوں کو ہوٹل اور تفریح گاہوں میں گھماتے ہیں اور عشق ومحبت کی آڑ میں ساری حدیں پار کرجاتے ہیں، جب سماج میں ناجائز تعلقات کی خبریں افشاں ہونے لگتی ہے تو خفیہ نکاح کرکے دوسری شادی کی فضیلت اور سماج میں اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے حیلے بہانوں کے ذریعے اپنا وقار قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نکاح سے قبل اس طرح غیر محرم لڑکے اور لڑکیوں سے تعلقات استوار کرنا کیسا ہے؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
المستفتی : شیخ مزمل، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بالغ مرد و عورت کا ایک دوسرے سے شرعی ضرورت کے بغیر بات چیت کرنا، ایک دوسرے کو دیکھنا اور ہنسی مذاق کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، شریعتِ مطہرہ نے اسے آنکھ، کان اور زبان کے زنا سے تعبیر کیا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھیں (زنا کرتی ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے، اور کان (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کی بات سننا ہے، اور زبان (زنا کرتی ہے) کہ اس کا زنا نامحرم کے ساتھ بولنا ہے، اور ہاتھ بھی (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو چھونا ہے۔ (صحیح مسلم)
اس عمل کی قباحت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب مرد و عورت دونوں شادی شدہ ہوں، جس کا اندازہ اس حکمِ شرعی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔
صورتِ مسئولہ میں شادی شدہ مرد کا کسی غیرمحرم عورت سے تعلق رکھنا اور اس کے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت کرنا، انہیں گھمانا پھرانا، اور معاذ اللہ حقیقی زنا تک پہنچ جانا یہ سب شریعتِ مطہرہ کی نگاہ میں سنگین جرائم اور گناہ کبیرہ ہیں، جس پر شرمندگی اور ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار ضروری ہے۔
اگر کسی کی ایک سے زائد نکاح کی استطاعت ہوتو اسے پہلے ہی کوشش کرنا چاہیے کہ اس کا ایک اور نکاح شریعت کے مطابق ہوجائے، اور سب سے پہلی بات یہ کہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ کسی کو ناجائز تعلقات بہرحال رکھنا ہی نہیں چاہیے، اور اس کی سنگینی بھی اوپر بیان کی جاچکی ہے، تاہم اگر کسی نے ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرلیا اور اس کے ناجائز تعلقات کی خبریں افشاں ہونے کے بعد وہ نکاح کرلیتا ہے تو اس کا یہ نکاح درست ہوجائے گا، اور ایسے حالات میں اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نکاح کرلے، اس پر دوسروں کو اسے عار نہیں دلانا چاہیے، کیونکہ جب تک وہ ناجائز کام کرتا رہا تب تک تو اسے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی، لیکن جب وہ جائز طریقہ سے اپنی ضرورت پوری کرنے لگا ہے تو پھر اسے برا بھلا کہا جارہا ہے، لہٰذا ایسی باتوں سے عوام کو بچنا چاہیے۔
قال اللہ تعالٰی : الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ۔ (سورۃ النور : جزء آیت۲)
أخرج البیہقي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما حدیثا فیہ … قال : کان الرجل إذا زنی أو أذی في التعبیر وضرب النعال فأنزل اللّٰہ عزوجل بعد ہٰذا: الزانیۃ والزاني فاجلدوا کل رجما في سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہٰذا سبیلہما الذي الذي جعل اللّٰہ لہما۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحدود، باب ما یستدل بہ الخ، رقم : ۱۷۳۸۸)
قال اللہ تعالیٰ : فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا۔ (سورہ نساء، آیت : ۳)
أبي ھریرة رضي الله عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامة وشقہ ساقط۔(مشکوة شریف ص ۲۷۹، بحوالہ : سنن ترمذی وسنن ابو داود وغیرہ، مطبوعہ : مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
قال اللہ تعالٰی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (ابن ماجہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1445
Jazak Allah Mufti sahab
جواب دیںحذف کریں