خدارا خبر لیجیے
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! فی الحال سوشل میڈیا پر ایک نیوز وائرل ہورہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مالیگاؤں کے نوجوان آج ریلیز ہونے والی ایک فلم کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے رات میں دو بجے سے نمبر لگائے ہوئے ہیں، اور یہ خبر بھی ہے کہ صبح پانچ بجے سے فلم کی نمائش جاری کردی گئی تھی جس میں مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حاضر تھی۔ اس خبر کو دیکھنے کے بعد بڑی سخت دلی تکلیف ہوئی اور یہ ارادہ ہوا کہ اس پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جائے تاکہ کسی نہ کسی کو بات سمجھ میں آجائے اور وہ راہ راست پر آجائے تو اس میں ہمارے لیے سعادت کی بات ہوگی، مضمون طویل ہے، لیکن اس کا مکمل مطالعہ فرمائیں ان شاءاللہ ضرور مفید ثابت ہوگا۔
معزز قارئین ! غور کرنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مسلم نام کے اداکاروں کی فلموں کی نمائش سے پہلے عموماً مخصوص تنظیموں کی طرف اعتراضات آتے ہیں، جس کے ردِعمل میں ہمارے نوجوان ان فلموں کو کامیاب کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، بلکہ کبھی ایسا گمان ہوتا ہے کہ وہ اسے ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ یہ عمل اور ردعمل اتنی مرتبہ ہوچکا ہے جسے دیکھ کر اب یہ گمان ہوتا ہے کہ شرپسندوں کی طرف سے آنے والا اعتراض بھی غالباً کوئی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو اسی طرح فلموں میں لگاکر اصل مدعوں سے ان کی نگاہ ہٹا دی جائے اور لغو، ناجائز اور حرام کاموں میں ان کا وقت اور حلال کمائی ضائع کروائی جائے، جس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔
جبکہ ہمارے نوجوانوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے پہلے ہی کافی کچھ کھو دیا ہے۔ ہم اپنی مذہبی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں، ہماری تہذیب کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے، ہم کہیں پر بھی مارے، کاٹے اور لُوٹے جارہے ہیں، ہم تعلیم کے میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ فی الحال بارش کا موسم تقریباً ختم ہوچکا ہے اور ہمارے شہر واطراف میں بارش بالکل نہ کے برابر ہوئی ہے، شہر کے صنعتی حالات مستحکم نہیں ہیں، یہ سارے حالات واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو بیان کرتے ہیں، لیکن ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں رہ گیا کہ ہم نے کیا کیا کھو دیا ہے؟ اور کیا کھو رہے ہیں؟ اور مستقبل میں کیا کھو دیں گے؟ ایسے حالات میں تو یہی شعر یاد آتا کہ :
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زِیاں جاتا رہا
ایسے لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ پردہ پر جتنے ہی یہ غریبوں کے مسیحا نظر آتے ہیں حقیقت میں یہ اتنے ہی چاپلوس، خوشامدی اور ابن الوقت ہوتے ہیں۔ ان کی reel life اور real life میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان کے نام کچھ اور ہوں گے لیکن پردہ پر ان کا کردار کسی دوسرے مذہب کا ہوتا ہے جسے یہ بخوبی نبھاتے ہیں، گذشتہ دنوں ایک فلم کو لے کر چند شرپسندوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی ہے، لیکن نام کے مسلمان ان اداکاروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی زبان اس مسئلے پر کبھی نہیں کھلی، اور ہمارے بعض نوجوان ایسے لوگوں کے عاشق بنے ہوئے ہیں، ان کی فلموں کی نمائش سے پہلے ہزاروں روپے کے پوسٹر لگا رہے ہیں، رات رات بھر جاگ کر اس کا ٹکٹ حاصل کررہے ہیں، اور تہجد کے بابرکت اور رحمتوں کے نزول کے وقت ناچ گانے دیکھ رہے ہیں۔ ان پر اپنے حلال اور خون پسینے سے کمائے گئے مال کو بے دردی سے لٹا رہے ہیں۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہیے کہ یہ وہی روش ہے جو تاتاریوں کے حملے کے وقت مسلمانوں کی تھی، اُس وقت تو ان کے پاس تعداد بھی تھی، تعلیم بھی تھی، اسباب بھی تھے، مال بھی تھا، لیکن دینداری نہیں تھی، گناہوں میں ملوث تھے، ناچ گانوں میں اپنی راتوں کو ضائع کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو تاتاریوں نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، آج ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، نہ تعداد ہے، نہ مال ہے، نہ اسباب ہیں، نہ ہی تعلیم اور دینداری ہے، ہمارے نوجوان بھی اپنی راتوں کو ناچ گانوں میں ضائع کررہے ہیں۔ پھر ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ اگر اللہ تعالیٰ کی گرفت آگئی تو کیسے حالات بنیں گے؟ یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ آدمی دنیا میں جس سے محبت کرتا ہے اور اس کے جیسی حرکتیں کرتا ہے تو قیامت میں اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، تو کیا ہمارے یہ نوجوان اس بات کو پسند کریں گے کہ ان کا حشر انہیں اداکاروں کے ساتھ ہو؟
سب سے پہلی بات تو فلمیں دیکھنا گناہ کبیرہ، پھر ناچ گانا کرنے والے بھانڈ لوگوں کے فین اور ان کے عاشق بننا، ان کے نام پر اپنے خون پسینے کی حلال کمائی برباد کرنا۔ آتش بازی کرکے اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنا، قانون کی خلاف ورزی کرنا یہ سب کے سب ناجائز اور حرام کام ہیں، اور مومن کی یہ شان ہی نہیں ہے کہ وہ ایک ساتھ ایسے بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہو۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر مستقبل طے کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی نوجوان غفلت اور بے حسی کی چادر اوڑھ کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگیں، تو قوم کا عروج، زوال میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا ہمارے نوجوان اللہ کے لیے حالات کی سنگینی کو سمجھیں اور فوری طور پر ایسے اعمال سے باز آجائیں جو دین ودنیا دونوں کو برباد کرکے رکھ دے۔
اسی طرح ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے بقدر ان برائیوں کو روکنے کی کوشش کریں، والدین اپنے بچوں کی مکمل خبر گیری کریں، بھائی بھائی پر دھیان دے۔ دوست دوست کی فکر کرے اور اسے برائیوں سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرے، تب جاکر معاشرہ میں کوئی سدھار آئے گا۔
اللہ تعالٰی ہمارے نوجوانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے، فضولیات اور منکرات سے ان کی حفاظت فرمائے اور قوم وملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ان میں پیدا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
آمین ثم آمین🌹
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ..... 🌹🌹
جواب دیںحذف کریںافسوس
جواب دیںحذف کریںاس موضوع پر ایک جلسہ کرنا چاہیے اور نوجوانوں کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ مفتی صاحب.
جواب دیںحذف کریںکاش ہمارے نوجوانوں کو یہ بات دل اتر جائے.
آج کل کے نوجوانوں کو نماز استسقاء پڑھ نے کے لیے ٹائم نہیں ہے نماز فجر کے ٹائم آنکھ نہیں کھولتی اور آج کل کے نوجوان نسل صبح صبح جوان فلم دیکھنے جارہے میری علماء کرام سے گزارش ہے کہ آنے والے جمعہ کو اسی پر بیان کرے ا میں یہ دعا کرتا ہوں کے اللہ ہمیں اور آپ کو نیک ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور آنے والی نسلوں کی جان کی مال کی عزت وآبرو کی حفاظت فرمائے آمین اسلام وعلیکم
حذف کریںماشاءاللہ مضمون بہت ہی بہترین ہے، اللہ آپکو جاۓ خیر سے نوازے اور امت مسلمہ کو صحیح سمجھ عطاء، کرے آمین
جواب دیںحذف کریںاس بلاگ پر تو آکر مطالعہ کریں گے نہیں لحاظ ہمارا کام ہے کہ یہ بات ان تک پہنچائیں....
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا الجزاء
جواب دیںحذف کریں