ہفتہ، 30 ستمبر، 2023

جنات کو قابو میں کرنے کا مسئلہ

سوال :

جن کو قابو میں کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اور ایسا کرنا کیسا ہے؟ ہمارے شہر کے ایک جید عالم نے کہا کہ یہ سب بکواس ہے جن کو انسان قابو میں نہیں کرسکتا۔ جبکہ دارالعلوم دیوبند کے فتاوی کی ویب سائٹ پر یہ بات ہے کہ کچھ عملیات کی بنا پر جن کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمیں جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جنات آگ سے پیدا کی گئی مخلوق ہیں، جو مختلف شکلیں اختیار کرتی ہیں، ان کی کوئی ایک شکل مخصوص ومتعین نہیں ہے، انسانوں کی طرح جنات بھی شرعی اَحکام کے مکلف ہیں، بعض مؤمن اور نیک، جبکہ بعض کافر اور نافرمان بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ ان کے وجود کا اعتقاد رکھیں، اس سے زیادہ تفصیلات اور گہرائی میں جانے کی ہمیں ضرورت نہیں، اور نہ ہم اس کے مکلف ہیں، اور نہ ہی یہ کوئی ایمانیات کا مسئلہ ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہو۔
 
جنات کو تابع کرنے کے سلسلے میں کچھ تفصیلات حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہیں جو ماشاء اللہ کافی و شافی ہیں، لہٰذا یہاں اسے نقل کیا جارہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لیے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں، قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے، اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں استرقاقِ حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے۔ (معارف القرآن : ۷/ ۲۶۶)

کسی کے غیرمعمولی صلاح، تقوی اور علمی قابلیت کی وجہ سے بھی جنات اس سے متاثر ہوجاتے ہیں، اور ان کی عقیدت و محبت میں ان سے رابطہ میں رہتے ہیں اور بقدر استطاعت ان کے کام بھی کردیتے ہیں، لہٰذا ایسا کوئی معاملہ ہوتو ان سے جائز کام لینا درست ہے۔ البتہ شریعت کے خلاف کام لینا حرام ہے، مثلاً دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنا، کسی کے مال کو غصب کرنا، کسی کو تنگ کرنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ایسے کاموں میں جنات سے مدد لینا جائز نہیں ہے، بلکہ حرام ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ جنات کی تسخیر، تابع، قبضہ اور قابو میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہانیوں میں پڑھ اور سن رکھا ہے کہ جیسے ہی تابع جن کو آواز دی جائے اور وہ "کیا حکم ہے میرے آقا؟" کہتا ہوا سامنے آجائے اور اپنے آقا کے ہر جائز ناجائز آسان اور مشکل حکم کو فوراً بجا لائے۔ بلکہ جنات کی تسخیر کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ ان سے رابطہ بن جاتا ہے اور کسی حد تک ان سے کوئی کام ہوجاتا ہے، وہ مکمل طور پر قابو اور قبضے میں نہیں آتے، اور نہ ہی وہ ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں کہ ہر کام کرسکیں، اس لیے کہ ان کی صلاحیتیں اور استطاعت بھی محدود ہوتی ہیں۔ ویسے بھی شرعاً یہ درست نہیں ہوسکتا کہ آپ جن پر قبضہ کر لیں اور جو چاہیں اس سے کام لیں، کیونکہ وہ بھی انسانوں ہی کی طرح اللہ کی ایک مکلف مخلوق ہے، جیسے کسی انسان کو غلام بنانا جائز نہیں اسی طرح کسی جن کو بھی غلام بنانا جائز نہیں ہوسکتا۔

واضح رہے کہ جنات کو قابو میں کرنے کا عمل انتہائی مشکل اور بڑا وقت طلب ہے اور بسا اوقات اس میں جان کا بھی خطرہ رہتا ہے، لہٰذا ایسی چیزوں میں پڑنے سے بچنا ہی چاہیے۔

سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کی بات ایک حد درست ہی ہے، اس لیے کہ جنات کو قبضہ میں کرنے کا دعوی کرنے والے عموماً جھوٹ بولتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں، تاہم اس کا امکان موجود ہے کہ جنات پر کچھ حد تک قابو کیا جاسکتا ہے جیسا کہ انسان کو مسمریزم اور عمل تنویم کے ذریعہ ایک حد تک تابع کیا جاتا ہے۔

الرقیۃ اذا کانت لغرض مباح بادعیۃ مأثورۃ او آیات قرآنیۃ او بمایشبہہا من الکلمات المنقولۃ من الصلحاء والمشائخ فہی ممالابأس بہا بل یثاب علیہا اذا کانت بما ورد عن النبی ﷺ انہ کان یرقی بہا۔ (احکام القرآن للشیخ ظفر احمد عثمانی، ۵۱/۱، تحقیق السحر وحکمہ،: حکم الرقی والعزائم، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)

تسخیر وماکان منہا بآیات قرآنیۃ او اسماء الہیۃ وامثالہا الا ان المقصود بہا اضرار مسلم، کالتغریق بین الزوجیں …… او تسخیر مسلم بحیث یصیر مسلوب الاختیار فی الحب او البغض لاحد …… فحرام لکونہ ظلما۔ (احکام القرآن للتھانوی ص:۱۵، ج:۱، حکم الرقی والعزائم، مطبوعہ کراچی، التقی فی احکام الرقی ص:۲۹، فصل ششم، مطبوعہ اشرفیہ دہلی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ربیع الاول 1445

5 تبصرے:

  1. جنات کے ذریعے ہمارے یہاں کے سیاستدان سدھارے نہیں جاسکتے کیا؟
    کرپشن کی ویڈیوز منظر عام پر نہیں لائی جاسکتی کیا؟
    مشہور کے شخصیات کے عوامی جھوٹ نہیں پکڑے جا سکتے ہیں کیا؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. مسمریزم اور عمل تنویم کے ذریعہ ایک حد تک تابع کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں سمجھا کیا ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. مسمریزم اور عمل تنویم جائز ہے یا نہیں ؟

    جواب دیںحذف کریں