سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا وتر چھوڑنے سے عشاء کی نماز ہوجاتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وتر اور عشاء دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص وتر نہ پڑھے تو اس کی عشاء کی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا، اس کی عشاء کی نماز ادا ہوجائے گی۔ البتہ نماز وتر واجب ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے، اگر وقت کے اندر ادا نہیں کی گئی تو بعد میں اس کی قضا کرنا ضروری ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
آپ نے یہ جو سنا ہے کہ ”وتر کے بغیر عشاء کی نماز نہیں ہوتی“ اگر مراد اس سے یہ ہے کہ عشاء کی فرض نماز کی صحت وتر پڑھنے پر موقوف ہے تو یہ غلط ہے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، عشاء کی فرض نماز پہلے ہوتی ہے اور وتر کا وقت فرض نماز کے بعد ہے، وتر کی ادائیگی بھی واجب ہے، اسکا ترک ناجائز اور حرام ہے، پہلے عشاء کی فرض نماز پڑھیں پھر سنت پھر وتر۔ ( رقم الفتوی : 48524)
معلوم ہوا کہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے کہ اگر کسی نے وتر ادا نہیں کی تو اس کی عشاء کی نماز بھی ادا نہیں ہوتی۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٤١٩)
أنہ سنۃ عند أبي یوسف ومحمد، وعن أبي حنیفۃ فیہ ثلاث روایات : واجب، وسنۃ، وفرض۔ والصحیح أنہ واجب عندہ، ومعناہ أنہ فرض عملا لا اعتقاداً حتی أن جاحدہا لا یکفر۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۳۳۸ رقم : ۲۵۹۵ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 ربیع الاول 1445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں