سوال :
کیا فرماتے ہیں مُفتیانِ کرام اس بارے میں کہ
1) عشقِ مجازی پر شعر و شاعری کرنا اور غزلیں بنانا جس میں محبوبہ کی خُوبصورتی، حُسن و جمال، چال چلن، دلکش اداؤں اور نخروں کا حقیقی یا تصوُّراتی ذکر ہو، شرعاً کیسا ہے؟
2) جیسا کہ شُعراءِ کرام کے بارے قرآن کہتا ہے کہ شُعراء، بہکے ہوئے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں، تو اس زُمرے میں کون کون سے شُعراءِ کرام آتے ہیں؟
3) باقاعدہ اعلان و تشہیر کے ذریعے عشقِ مجازی پر مبنی مُشاعرہ کروانا اور اُس میں بیرون شہر کے شُعراء و شاعرات کو بُلواکر پروگرام آرگنائز کرنا، کیا شریعت میں اس کے لئے کہیں وُسعت ہے؟
4) کیا عشقِ مجازی پر مبنی مُشاعرہ زمانہ جاہلیت کے قدیم بے ہودہ شعر و شاعری پر مبنی اُن جلسوں کے مُترادف تو نہیں جو ہَوس پرستی کو ہَوا دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد زوال پذیر ہُوئے؟ اِن سوالوں کے مُفصّل جوابات مطلوب ہیں۔
(المستفتی : کامران حسَّان انصاری، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عشقِ مجازی پرشعر و شاعری کرنا، جس میں صنف نازک کی خُوبصورتی، حُسن و جمال، اداؤں کا ذکر ہو، شرعاً جائز نہیں ہے ۔
2) وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ۔
اس آیت میں شعر کے اصطلاحی اورمعروف معنی ہی مراد ہیں۔ یعنی موزوں و مقفّٰی کلام کہنے والے، اس کی تائید فتح الباری کی روایت سے ہوتی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحة، حسان بن ثابت اور کعب بن مالک جو شعراء صحابہ میں مشہور ہیں روتے ہوئے سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ خدائے ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آیت کے آخری حصہ کو پڑھو۔ مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے اس لئے تم اس استثناء میں داخل ہو جو آخر آیت میں مذکور ہے اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی آیت میں مشرکین شعراء مراد ہیں کیونکہ گمراہ لوگ سرکش شیطان اور نافرمان جن ان ہی کے اشعار کی اتباع کرتے تھے اور روایت کرتے تھے۔
آیات مذکورہ کے شروع سے شعر و شاعری کی سخت مذمت اور اس کا عنداللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے مگر آخر سورت میں جو استثناء مذکور ہے اس سے ثابت ہوا کہ شعر مطلقاً برا نہیں بلکہ جب جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کے ذکر سے روکنا یا جھوٹ ناحق کسی انسان کی مذمت اور توہین ہو یا فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم و مکروہ ہے اور جو اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ الآیتہ کے ذریعہ مستثنی فرما دیا ہے، اور بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اطاعت وثواب میں داخل ہیں جیسا کہ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے کہ ان من الشعر حکمۃ، یعنی بعض شعر حکمت ہوتے ہیں (رواہ البخاری) حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ حکمت سے مراد سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن بطال نے فرمایا جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کا ذکر، اسلام سے الفت کا بیان ہو وہ شعر مرغوب و محمود ہے اور حدیث مذکور میں ایسا ہی شعر مراد ہے، اور جس شعر میں جھوٹ اور فحش بیان ہو وہ مذموم ہے۔ (فتح الباری/معارف القرآن)
3) اس قسم کے مشاعروں کا انعقاد کی شریعت میں بالکل بھی گنجائش نہیں ہے، اس قسم کے مشاعروں کا انعقاد کرنے والے تعاون علی المعصیت کے مرتکب ہوں گے۔
4) مروجہ مشاعروں میں اگر بے پردگی ہو، عورتوں کے حسن و اداؤں پر شاعری کی جاتی ہو تو بلاشبہ دونوں میں موافقت ہے۔
قال اللّٰہ تعالیٰ : وَالشُّعْرَآئُ یَتَّبِعُہُمُ الْغٰوٗوْنَ۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَہِیْمُوْنَ۔ (الشعراء، آیت : ۲۲۴-۲۲۵)
وقال علي بن أبي طلحۃ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: أکثر قولہم یکذبون فیہ، وہٰذا الذي قالہ ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ ہو الواقع في نفس الأمر۔ فإن الشعراء یتبجّحون بأقوال وأفعال لم تصدر منہم، ولا عنہم فیتکثرون بما لیس لہم۔ (تفسیر ابن کثیر ۶؍۱۵۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
قال اللّٰہ تعالیٰ: وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (المائدۃ، آیت : ٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی الحجہ 1439
السلام علیکم مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںساتھ ہی ساتھ ایک اور مسئلہ ارسال کر دیں کہ گانا سننا یوٹیوب پر وڈیوز دیکھنا اور دکھانا اور اس کی کمائی کھانا کیسا ہے؟