منگل، 26 ستمبر، 2023

جذامی سے متعلق احادیث کا حقیقی مفہوم

سوال :

1) سیدنا شرید بن سوید ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنو ثقیف میں سے ایک کوڑھ زدہ آدمی آیا تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت کرے، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا: تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کرلی ہے، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔
2) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالا کرو۔
3) ۔ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے۔
ذکر کردہ احادیث کی تحقیق مطلوب ہے۔ اگر صحیح ہو تو کچھ تشریح بھی فرما دیں۔ عوام میں یہ بات مشہور ہیکہ جذام. زدہ مریضوں کو کھانا پینا نیزہ میں لگا کر دینا /نیزہ کے فاصلہ سے دینا چاہیے۔
(المستفتی : عامرملک، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جذامی سے متعلق ارسال کردہ روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں اور درست ہیں، ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جبکہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ (1)

ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں۔

حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض اوہام و وساوس کا سدباب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔

اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور ان کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعیدنہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہو جائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل واعتقاد علی اللہ کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم وگمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (2)

حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب وپرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا، اور جس شخص کا یقین و ایمان پختہ ہو اس شخص کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح حدیث شریف میں نیزہ کی دوری کا لفظ تشبیہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد اجتناب و پرہیز ہی ہے، حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔

1) و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ۔(مسلم)

2) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَی وَمُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ ثُمَّ قَالَ کُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَکُّلًا عَلَی اللَّهِ۔ (ابن ماجہ)
مستفاد : مشکوٰۃ المصابیح مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی القعدہ 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں