سوال :
محترم مفتی صاحب ! پڑوسی ملک کے ایک انجینئر محمد علی مرزا کی ویڈیو دیکھنے میں آئی، اس میں وہ سنت نمازوں کو فالتو کہہ رہا ہے، آپ سے درخواست ہے کہ ویڈیو دیکھ کر اس کی حقیقت بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فالتو کا ایک معنی "زائد" کے بھی آتا ہے، چنانچہ یہاں فالتو کو اگر "زائد"کے معنی میں لیا جائے تو یہ بات درست ہے کہ غیرمؤکدہ سنتیں بھی نوافل اور زائد کے حکم میں ہیں، جن کے ادا کرنے پر ثواب اور ترک کر دینے پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر فالتو معاذ اللہ بے کار اور فضول کے معنی میں لیا جائے جیسا کہ ہمارے یہاں فالتو کو عموماً اسی معنی میں لیا جاتا ہے، اور ویڈیو میں انجینئر جس انداز سے بار بار سنتوں کو فالتو کہہ رہا ہے تو اس سے یہی گمان ہوتا ہے وہ معاذ اللہ سنتوں کو بے کار اور فضول سمجھ رہا ہے، جبکہ دین کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو حقیر اور بے کار سمجھنا بلاشبہ کفر ہے، لہٰذا اس شقی اور بدبخت انجینئر پر کفر کا اندیشہ ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ سنتِ مؤکدہ کا اہتمام کرنا واجب کے قریب ہے، بغیر کسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کا چھوڑنا جائز نہیں ہے، جوشخص بلا کسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتا ہے وہ گناہ گار ہوتا ہے۔ لہٰذا سنتِ مؤکدہ نمازوں کو فالتو بمعنی زائد کہنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ زائد نہیں ہیں، بلکہ ان کا ادا کرنا ایک طرح سے ضروری ہے۔ اور اگر معاذ اللہ فالتو بمعنی بے کار اور فضول کہا گیا ہے تو بلاشبہ ایسا شخص کافر ہے۔
اسی طرح انجینئر ویڈیو میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ احادیث میں سنت نمازوں کے لیے سنت کا لفظ موجود نہیں ہے، بلکہ فقہاء نے اسے سنت کا نام دیا ہے، تو ہم اسے وہ حدیث بھی دکھا دیتے ہیں جس میں ان سنت مؤکدہ نمازوں کا ذکر بھی ہے اور اس میں سنت کا لفظ بھی موجود ہے، وہ حدیث شریف درج ذیل ہے :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ؛ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہمیشہ بارہ رکعت سنت پڑھتا رہے گا اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے ایک مکان بنائے گا، چار رکعت ظہر سے پہلے، دو ظہر کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد، اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
معلوم ہوا کہ انجینئر کو صحاحِ ستہ کی مشہور اور صحیح احادیث کا بھی علم نہیں ہے، اور ویسے بھی یہ شخص صحابہ کا گستاخ، قرآن و حدیث کی من مانی تشریح اور تحریف کرنے والا جاہل اور گمراہ ہے، لہٰذا اس کے بیانات سننا بھی جائز نہیں ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ؛ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤١٤)
وَلِهَذَا كَانَتْ السُّنَّةُ الْمُؤَكَّدَةُ قَرِيبَةً مِنْ الْوَاجِبِ فِي لُحُوقِ الْإِثْمِ كَمَا فِي الْبَحْرِ، وَيَسْتَوْجِبُ تَارِكُهَا التَّضْلِيلَ وَاللَّوْمَ كَمَا فِي التَّحْرِيرِ: أَيْ عَلَى سَبِيلِ الْإِصْرَارِ بِلَا عُذْرٍ۔ (شامی : ٢/١٢)
فَالْأَوْلَى مَا فِي التَّحْرِيرِ أَنَّ مَا وَاظَبَ عَلَيْهِ مَعَ تَرْكٍ مَا بِلَا عُذْرٍ سُنَّةٌ، وَمَا لَمْ يُوَاظِبْ عَلَيْهِ مَنْدُوبٌ وَمُسْتَحَبٌّ وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْهُ بَعْدَ مَا رَغَّبَ فِيهِ۔ (شامی : ١/١٢٤)
من أہان الشریعۃ أو المسائل التي لا بدّ منہا کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر : ۱۷۴)
وَمَنْ اسْتَخَفَّ بِسُنَّةٍ أَوْ حَدِيثٍ مِنْ أَحَادِيثِهِ ﵊ أَوْ رَدَّ حَدِيثًا مُتَوَاتِرًا أَوْ قَالَ سَمِعْنَاهُ كَثِيرًا بِطَرِيقِ الِاسْتِخْفَافِ كَفَرَ۔ (مجمع الأنہر : ١/٦٩٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الاول 1445
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںEngeneer md ali mirza har baat me glat nahi hai mai unhe sunta hun
جواب دیںحذف کریںآپ مجھ سے براہ کرم اس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں۔
حذف کریںہندوستان میں بھی ایک فرقہ اہل قرآن ایسا ہی جواز رکھتے ہیں انکا علاج بتائیں
حذف کریںاسنے تووترکوبھی نفل میں شمارکیاھے
جواب دیںحذف کریںHaq kaha jazakallah
جواب دیںحذف کریں