خدارا خبر لیجیے
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں کبھی بھی کچھ بھی ٹرینڈ چلنے لگتا ہے۔ فی الحال ایک ایسا تکلیف دہ اور شرعاً ناجائز وحرام ٹرینڈ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں میں چل رہا ہے جس کی طرف ہم میں سے بہت سے سرپرستوں کی توجہ ہی نہیں جارہی ہے۔ وہ ٹرینڈ پٹاخے بازی کا ہے۔
چھوٹے چھوٹے بچوں کا بندوق میں ٹکلیاں ڈال کر مسلسل پھوڑنا، دوسرے لہسن پٹاخہ جسے جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسے پٹخ دیا جائے تو وہ پھوٹ جاتا ہے جس میں اچھی خاصی آواز آتی ہے، اور تیسرے بیڑی پٹاخہ، اس کو بھی باقاعدہ کہیں رکھ کر جلانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ماچس کی طرح اسے باکس پر رگڑ کر پھینک دیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں کافی دھماکہ دار آواز رکھتا ہے۔
اور یہ پٹاخے باز بچے آپ کو ہماری ہر مسلم بستی میں ملیں گے جو کسی کا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے یہاں تک کہ مسجد اور جماعت کے تقدس کا بھی خیال نہ کرتے ہوئے اپنی پٹاخے بازی میں مگن ملیں گے۔
اگر یہی کام کوئی غیرمسلم ہماری بستی اور ہماری مسجد کے پاس آکر کردے تو ہماری غیرت اور حمیت کا کیا حال ہوگا؟ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ پہلے اس طرح کی برائیوں پر لوگ روک ٹوک کیا کرتے تھے، لیکن ایسا لگتا ہے اب لوگ اسے برا بھی نہیں سمجھتے یا پھر انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ان بچوں کی شرارت کا شکار نہ ہوجائیں۔ دونوں وجوہات ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔
آج شہری حالات کیا چل رہے ہیں ہم سب کو معلوم ہے۔ بارانِ رحمت کا نزول رکا ہوا ہے۔ پاور لوم صنعت مندی کا شکار ہے۔ وبائی امراض کا زور ہے، ملکی حالات مسلمانوں پر دن بدن سخت ہوتے جارہے ہیں، ایسے حالات میں ہمیں بچوں سمیت رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے تو یہاں ایک ایسا عجیب اور انتہائی سنگین گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے جسے دیکھ کر یہی کہا جائے کہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کو بھی ہری ہری سوجھ رہی ہے، اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کہ ہم نے ان کو پٹاخوں اور آتش بازی کی برائی اور قباحت سمجھائی ہی نہیں ہے، جبکہ پٹاخے پھوڑنا اور آتش بازی کرنا درج ذیل متعدد وجوہات کی بناء پر ناجائز اور حرام ہے۔
اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ (سورہ بقرہ، آیت : 195)
آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔
فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔
اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت، اور دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی احادیث میں ممانعت اور سخت وعید وارد ہوئی ہے۔
اگر بچے نابالغ ہیں اور بلاشبہ ایسا ہی ہے تو ان کا گناہ ان کے والدین پر ہورہا ہے، اور اس میں برابر کے گناہ گار وہ دوکاندار بھی ہیں جو ایسی چیزیں لاکر فروخت کرتے ہیں، اگر وہ فروخت ہی نہ کریں تو کوئی کیونکر خریدے گا؟ ویسے بھی آتش بازی کے سامان اور پٹاخوں کی تجارت شرعاً ناجائز اور سخت گناہ ہے، اس لیے کہ اس میں درج بالا متعدد کبیرہ گناہوں میں تعاون پایا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلم دوکانداروں کو فوراً اس ناجائز اور حرام چیز کی تجارت سے باز آجانا چاہیے۔
امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے والے تمام افراد فوری طور پر اس کا ایکشن لیں گے، خود اپنے گھر کے بچوں پر نظر رکھنے کے ساتھ حکمت اور نرمی کے ذریعے دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور حالات کی سنگینی کو سمجھ کر اپنے اعمال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
بچے اسکول میں بھی ان پٹاخوں سے ایک دوسرے کو ستا رہےہیں
جواب دیںحذف کریںاب تو شاید کوئی عذاب الٰہی ہی ہماری آنکھیں کھول دے اتنا بڑا شہر اتنے اسکول کالج اور مدارس و مساجد کے ہوتے ہوئے بھی کوئی برائی عروجِ پر ہے
جواب دیںحذف کریںبر وقت ،توجہ کے قابل
جواب دیںحذف کریں