ہفتہ، 29 جولائی، 2023

تعزیہ بنانے اور اس کو دیکھنے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! تعزیہ بنانا کیسا ہے؟ اور اس کو دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ مسلمانوں کا ایک طبقہ جو اپنے آپ کو سنی کہتا ہے وہ بھی تعزیہ بناتا ہے، جبکہ سننے میں آیا ہے کہ ان کے بڑوں نے بھی اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مکمل مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام و سلف صالحین میں سے کسی کے بھی عمل سے تعزیہ داری کا ثبوت نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑی بدعت اور گمراہی ہے۔

تعزیہ کی تاریخ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہندوستان کا ایک بادشاہ تیمور لنگ جو شیعہ فرقہ سے تھا، محرم کے مہینے میں ہر سال عراق ضرور جاتا تھا، لیکن بیماری کی وجہ سے ایک سال نہیں جا پایا۔ وہ دل مریض تھا، اس لئے اطباء نے اسے سفر کیلئے منع کیا تھا۔ بادشاہ سلامت کو خوش کرنے کیلئے درباریوں نے ایسا کرنا چاہا، جس سے تیمور خوش ہو جائے۔ اس زمانہ کے فنکاروں کو جمع کر کے انہیں عراق کے کربلا میں بنے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبرمبارک کی نقل بنانے کا حکم دیا۔ کچھ فنکاروں نے بانس کی کھپچیوں کی مدد سےقبر یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یادگار کا ڈھانچہ تیار کیا۔ اسے طرح طرح کے پھولوں سے سجایا گیا۔ اسی کو تعزیہ کا نام دیا گیا۔اس طرح تعزیہ کو پہلی بار 801 ہجری میں تیمور لنگ کے محل کے احاطے میں رکھا گیا۔تیمور کے اس تعزیہ کی دھوم بہت جلد پورے ملک میں مچ گئی۔ ملک بھر سے راجے رجواڑے اور عقیدت مند عوام ان تعزیوں کی زیارت کیلئے پہنچنے لگے۔ تیمور لنگ کو خوش کرنے کیلئے ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس روایت کا سختی کیساتھ آغازہو گیا۔خاص طور پر دہلی کے آس پاس کے آباد شیعہ فرقے کے نواب تھے، انہوں نے فوری طور پر اس روایت پر عمل شروع کر دیا اس کے بعد سے لے کر آج تک اس منفرد روایت کو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما یامیانمار میں منایا جا رہا ہے۔ جبکہ خود تیمور لنگ کے ملک ازبکستان یا قازقستان میں اور شیعہ اکثریتی ملک ایران میں تعزیوں کی روایت کا کوئی ذکرنہیں ملتا۔

ویسے تعزیہ بنانے کی تاریخ خواہ کچھ بھی ہو، اس کے دین میں ایک نئی چیز اور بدعت قبیحہ و سیئہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

تعزیہ داری درعشرہ محرم وساختن ضرائح وصورت وغیرہ درست نیست زیراکہ تعزیہ داری عبارت ازیں ست کہ ترک لذائذ وترک زینت کند وصورت محزون و غمگیں نمایند یعنی مانند صورت زناں سوگ دارندہ بنشیند ومرد را ہیچ ازیں قسم در شرع ثابت نشود۔ (فتاویٰ عزیزی : ۷۲، مطبوعہ دہلی)
ترجمہ : عشرہ محرم میں تعزیہ داری اور تعزیے یا قبروں کی صورت بنانا جائز نہیں ہے اس لئے کہ تعزیہ نام ہے اس بات کا کہ لذیذ چیزوں اور زینت کو ترک کردے اور شکل وصورت غمگین و محزون بنائے یعنی سوگ والی عورتوں کی طرح بیٹھے، مرد کو یہ بات کسی موقع پر شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

آپ نے صحیح سنا ہے، فاضل بریلی احمد رضا خاں صاحب مرحوم کے اس سلسلے میں متعدد فتاوی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

علم، تعزیہ، بیرک، مہندی، جس طرح رائج ہے بدعت ہے، اور بدعت سے شوکت اسلام نہیں ہوتی، تعزیہ کو حاجت روا یعنی ذریعۂ حاجت روائی سمجھنا جہالت پر جہالت ہے اور اس سے منت ماننا حماقت اور نہ کرنے والوں کو باعث نقصان خیال کرنا زنانہ وہم ہے، مسلمانوں کو ایسی حرکت سے باز آنا چاہئے۔ (رسالہ محرم و تعزیہ داری : ۵۹)

سوال : تعزیہ بنانا سنت ہے، جس کا یہ عقیدہ ہو یا قرآن شریف کی کسی آیت یا حدیث سے سند پکڑے، ایسا شخص علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک خارج از اسلام تو نہ سمجھا جائے گا؟ اس پر کفر کا اطلاق جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کیسے شروع ہوا ہے؟ اگر سامنے آجائے تو بنظر تحقیر یا تعظیم دیکھنا چاہئے یا نہیں؟
الجواب : وہ جاہل خطا وار مجرم ہے، مگر کافر نہ کہیں گے، تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض ورو گردانی کریں اس کی جانب دیکھنا ہی نہ چاہئے اس کی ابتداء سنا جاتا ہے امیر تیمور لنگ بادشاہ دہلی کے وقت سے ہوئی۔ (عرفان شریعت : ۱۵/۲)

تعزیہ داری طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔ (رسالہ تعزیہ داری : ۳)

رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں۔ اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیان لئام ہے۔ (فتاوی رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

سوال : محرم شریف میں مرثیہ خوانی میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : ناجائز ہے کہ وہ مناہی و منکرات (ناجائز اعمال) سے مملو (بھرے) ہوتے ہیں۔ (عرفان شریعت : ١/۱۶)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ تعزیہ داری بدعت اور گمراہی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور بات صرف بدعت پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ہندوؤں کے تہوار گنپتی سے مشابہت بھی ہے، یعنی ہندوؤں کے تہوار گنپتی کے جیسے پہلے ایک ماڈل بنانا پھر اس سے منتیں ماننا اور پھر اسے جاکر ندی میں ڈبو دینا، اسے دیکھ کر کون سے غیرمسلم اسلام سے متاثر ہوں گے؟ وہ تو یہی سمجھیں گے جو کام ہم کرتے وہی معمولی سے تبدیلی کے ساتھ مسلمان بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ گویا اس کی وجہ سے غیرمسلموں کو اسلام سے بدظن اور دور کرنے کا کام کیا گیا ہے۔

اور جب تعزیہ کا بنانا جائز نہیں ہے تو اس کا دیکھنا بھی جائز نہیں، کیونکہ گناہ کے کاموں کو دیکھنا بھی گناہ ہوتا ہے، نیز اس کو دیکھنے کی وجہ سے دشمنانِ اسلام کی رونق بڑھتی ہے، جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ " من کثر سواد قوم فہو منہم‘‘۔(کنز العمال ۹؍۲۲ رقم : ۲۴۷۳۵)
(ترجمہ : جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کو تعزیہ بنانے اور اس کے دیکھنے سے مکمل طور پر اجتناب کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ سنگین اور کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔

عن زینب بنت أبي سلمۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: لما أتی أم حبیبۃ نعي أبي سفیان دعت في الیوم الثالث بصفرۃ، فمسحت بہ ذراعیہا وعارضیہا وقالت : کنت عن ہٰذا غنیَّۃً، سمعت النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تحد فوق ثلاثٍ إلا علی زوج، فإنہا تحد علیہ أربعۃ أشہر وعشرًا۔ (صحیح مسلم : ۱؍۴۸۷)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۲۵۱)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 محرم الحرام 1445

1 تبصرہ: