سوال :
محترم مفتی صاحب ! خصّی جانوروں (بکروں) کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ بعض افراد آج بھی کہتے ہیں کہ نہیں کرنا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ ایسے جانوروں کو خصّی کرنا چاہیے یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خصی جانور کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ افضل اور مسنون ہے، کیونکہ اس کا گوشت غیر خصی سے بہتر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خصی بکرے کی قیمت غیر خصی سے زیادہ ہوتی ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے دن دو مینڈھے خصی سینگوں والے اور چتکبرے ذبح فرمائے۔
لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خصی جانور کی قربانی نہیں کرنا چاہیے وہ سخت غلطی پر ہیں، انہیں توبہ و استغفار کرکے اپنی اس بے بنیاد بات سے رجوع کرنا چاہیے۔
انسان کو خصی کرنا بالاتفاق ناجائز اور حرام ہے، اور جانوروں کو خصی کرنا جب کہ اس میں کوئی منفعت ہو یعنی اسے فربہ بنانا ہوتو حرج نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو انسانوں کے لیے ہی پیدا فرمایا ہے۔ اور جب کوئی منفعت نہ ہو اور نہ ہی کسی تکلیف کو دور کرنا مقصود ہو تو پھر جانوروں کو بھی خصی کرنا جائز نہیں۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٧٩٥)
خِصَاءُ بَنِي آدَمَ حَرَامٌ بِالِاتِّفَاقِ وَأَمَّا خِصَاءُ الْفَرَسِ فَقَدْ ذَكَرَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ فِي شَرْحِهِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا وَذَكَرَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ فِي شَرْحِهِ أَنَّهُ حَرَامٌ وَأَمَّا فِي غَيْرِهِ مِنْ الْبَهَائِمِ فَلَا بَأْسَ بِهِ إذَا كَانَ فِيهِ مَنْفَعَةٌ وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَنْفَعَةٌ أَوْ دَفْعُ ضَرَرٍ فَهُوَ حَرَامٌ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٧)
وَالْخَصِيُّ أَفْضَلُ مِنْ الْفَحْلِ؛ لِأَنَّهُ أَطْيَبُ لَحْمًا، كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٢٩٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1444
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں