سوال :
محترم مفتی صاحب ! ایک چیز مشاہدے میں آئی ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی بندہ بہت دنوں تک بیماری میں مبتلا رہے، بستر مرگ پر ہو، تو گھر والے، اولاد، بیوی اسکے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ، میرے شوہر کو، میرے والد کو، میرے بھائی کو، میرے بیٹے کو عافیت کے ساتھ اپنے پاس بلا لے، اسے اس بیماری کے بدلے آسان موت عطا فرما۔ عرض یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح سے کسی کے لیے موت کی دعا کی جا سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مریض ہو یا تندرست، دوسروں کے لیے ہو یا خود اپنے لیے موت کی تمنا اور دعا کرنے کی ممانعت ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی تکلیف میں اگر کوئی شخص مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے اور اگر کوئی موت کی تمنا کرنے ہی لگے تو یہ کہنا چاہیئے « اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا کَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا کَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي » اے اللہ ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھ کو اٹھا لے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو لوگ براہ راست اپنے مریض رشتہ دار یا متعلقین کے لیے موت کی دعا کرتے ہیں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ حدیث شریف میں جو دعا آئی ہے وہ کرنا چاہیے خواہ اردو میں ہی کیوں نہ ہو، یعنی اس طرح دعا کرے کہ اے اللہ ! جب تک زندگی فلاں کے لیے بہتر ہے تو انہیں زندہ رکھ اور جب موت ان کے لیے بہتر ہو تو انہیں موت دے دے۔ یا پھر اردو میں یہ دعا بھی کرنا مناسب ہے کہ اے اللہ ! ان کے حق میں جو بھی خیر ہو اسے جلد از جلد ظاہر فرما۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُکُمْ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ فَإِنْ کَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا کَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا کَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٦٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1444
Jazakallah bht hi umda aur jaame tahreer h
جواب دیںحذف کریںSahi, baat
جواب دیںحذف کریںJazakallah
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں