سوال :
محترم مفتی صاحب ! زید کی ہندہ سے رشتہ کی بات چلی۔ دونوں گھر والوں کو لڑکی لڑکا پسند آگیا، لیکن اس دوران معلوم ہوا کہ ہندہ کے جسم پر سفید داغ ہیں۔ جس کی وجہ سے اس رشتے کو زید کے والد نے منع کردیا۔ کیا زید کے والد کا عمل درست ہے؟ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن بیماریوں سے متعلق یہ رجحان ہو اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہ بات کسی نہ کسی درجہ میں ثابت ہو کہ یہ بیماریاں متعدی اور پھیلنے والی ہیں تو ایسے مریضوں سے اختلاط کے سلسلے میں شریعتِ مطہرہ میں دونوں باتیں ملتی ہیں۔
مثلاً جذام کے مریض سے متعلق جو احادیث ملتی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جبکہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ (1)
ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں۔
حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض اوہام و وساوس کا سدباب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔
اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور ان کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعیدنہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہو جائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل واعتقاد علی اللہ کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم وگمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (2)
حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب وپرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا، اور جس شخص کا یقین و ایمان پختہ ہو اس شخص کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
درج بالا تفصیلات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر زید کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ ہندہ سے نکاح کے بعد خدانخواستہ اگر اسے بھی برص (سفید داغ) کا مرض لاحق ہوجائے تو وہ بدعقیدگی کا شکار نہیں ہوگا تو وہ بلاشبہ ہندہ سے نکاح کرسکتا ہے، زید کے والد کو اس رشتہ سے منع نہیں کرنا چاہیے، اور اگر زید کو اپنے اوپر اعتماد نہ ہوتو پھر وہ خود اس سے احتیاط کرے۔
1) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۵۳۴)
2) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ ثُمَّ قَالَ کُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَکُّلًا عَلَی اللَّهِ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٣٥٤٢)
مستفاد : مشکوٰۃ المصابیح مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی الحجہ 1444
ماشاء اللہ بہترین جواب ارسال فرمایا آپ نے مفتی صاحب.
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
تفصیل کے وجہ سے ماشاءاللہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا۔فجزاکم اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں