سوال :
حضرت مفتی صاحب سوال یہ ہیکہ عیدالاضحیٰ کے اول دن میں ہندو قوم کا تہوار ہے، جس میں گوشت کھانے کاٹنے وغیرہ کا شدت سے احتیاط کیا جاتا ہے اور حالات کے پیش نظر فتینوں کی جانب سے فتنہ کا اندیشہ زیادہ ہے۔ قریہ دیہات میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات کے زیادہ امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس صورت میں قوم کو پہلے دن قربانی کے بجائے دوسرے دن قربانی کی ترغیب دینا کیسا ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : سید رضوان موسی نعمانی، مہاراشٹر)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ۱۰؍ذی الحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے، اس کے بعد ۱۱؍اور ۱۲؍ذی الحجہ کا درجہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پہلے دن کو چھوڑ کر دوسرے اور تیسرے دن قربانی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن باقاعدہ اجتماعی طور پر اس کی ترغیب دینا اور پورے گاؤں والوں کو پہلے دن کے بجائے دوسرے تیسرے دن قربانی کے لیے کہنا درست نہیں معلوم ہوتا، اس لیے کہ ۱۰؍ذی الحجہ کو قربانی کرنا شعائر اسلام میں سے ہے، اب اگر پورا گاؤں اسے ترک کردے گا تو بلاشبہ اس پر حرف آئے گا۔
موجودہ حالات میں مذہبی رواداری، بلاوجہ کے فتنے کے اندیشہ اور فسادات کے ڈر کی وجہ سے ہم نے بہت سے معاملات میں چاپلوسی اور بزدلی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے جو بلاشبہ تشویشناک روِش ہے جو آگے چل کر ہمیں مزید بزدلی اور گمراہی کی طرف لے جائے گی۔ معاذ اللہ
لہٰذا جو لوگ پہلے دن قربانی کرنا چاہیں وہ بلاخوف وخطر پہلے دن قربانی کریں، کیونکہ ہندوستانی قانون کے مطابق ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ البتہ اس میں احتیاط کا پہلو پیشِ نظر رہے کہ سڑکوں اور گلیوں کے بجائے متعینہ جگہوں یا گھروں کے آنگن میں اور خاموشی کے ساتھ قربانی کریں تاکہ فتینوں کو فتنہ کا موقع نہ ملے۔
یوم النحر الیٰ آخر ایامہ وہی ثلاثۃ، افضلہا اولہا ثم الثانی ثم الثالث۔ (درمختار مع الشامی : ۹؍۴۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1444
ماشاءاللہ زبردست
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںزبردست!
ہمیں غیروں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے