پیر، 19 جون، 2023

اجتماعی قربانی میں حرام آمدنی والے کی شرکت کا مسئلہ

سوال :

مفتی طارق مسعود کے بیان میں سننے ملا کہ اگر قربانی کے جانور میں کسی آدمی کا حصہ ہو جس کی کمائی حرام ہے تو کسی کی بھی قربانی قبول نہیں ہوتی تو اس طرح جو اجتماعی قربانی ہوتی ہے اس میں تو انجان آدمی کے ساتھ قربانی کی جاتی ہے۔ قربانی میں حصہ دار ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں، اگر ایسی صورت میں کسی ایسے آدمی کا حصہ ہمارے جانور کے اندر ہو اس کی کمائی حرام ہے تو قربانی کے اوپر کیا اثر پڑے گا؟ اور جو ادارے اجتماعی قربانیاں کرتے ہیں کیا وہ ان مسائل کا خیال رکھتے  ہیں یا نہیں؟ درست صورت کی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبیدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور مفتی صاحب کا بیان کیا ہوا مسئلہ بالکل درست ہے۔ یعنی اجتماعی قربانی میں اگرکوئی حرام آمدنی والا حصہ دار شامل ہو جس کی آمدنی کا اکثر یا مکمل حصہ حرام ہو تو شرکاء میں سے کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔

البتہ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم دیگر مسلمانوں کے بارے میں نیک گمان رکھیں اور یہ سمجھیں کہ ہماری طرح دوسرے مسلمان بھی حلال مال کماتے ہیں۔ اس لیے کہ عام طور پر مسلمان حرام نہیں کماتا، اور نہ ہی ہمیں مسلمان کی آمدنی کی تفتیش یا تجسس کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا جب تک یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ کوئی حصہ دار حرام آمدن والا ہے تب تک دیگر شرکاء کی قربانی کے نہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس کی کُل یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اسے قربانی کے جانور میں شریک نہ کیا جائے۔ اور اگر خدانخواستہ اجتماعی قربانی کا نظم کرنے والوں کو اس کا علم تھا اس کے باوجود انہوں نے حرام آمدنی والوں کو شریک کرلیا (جس کا گمان نہ کے برابر ہے) تو اس کا وبال انہیں پر ہوگا۔ دیگر شرکاء کو چونکہ اس کا علم ہی نہیں ہوگا، لہٰذا ان پر اس کا وبال نہیں ہوگا، پس انہیں تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، ان کی قربانی درست ہوگی۔

وَإِنْ كَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ صَبِيًّا أَوْ كَانَ شَرِيكُ السَّبْعِ مَنْ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ كَانَ نَصْرَانِيًّا وَنَحْوَ ذَلِكَ لَا يَجُوزُ لِلْآخَرَيْنِ أَيْضًا كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.وَلَوْ كَانَ أَحَدُ الشُّرَكَاءِ ذِمِّيًّا كِتَابِيًّا أَوْ غَيْرَ كِتَابِيٍّ وَهُوَ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ يُرِيدُ الْقُرْبَةَ فِي دِينِهِ لَمْ يُجْزِئْهُمْ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ لَا يَتَحَقَّقُ مِنْهُ الْقُرْبَةُ، فَكَانَتْ نِيَّتُهُ مُلْحَقَةً بِالْعَدَمِ، فَكَأَنْ يُرِيدَ اللَّحْمَ وَالْمُسْلِمُ لَوْ أَرَادَ اللَّحْمَ لَا يَجُوزُ عِنْدَنَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٠٤)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

وَقَالَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ : وَلَوْ نَوَى فِي الْمَالِ الْخَبِيثِ الَّذِي وَجَبَتْ صَدَقَتُهُ أَنْ يَقَعَ عَنْ الزَّكَاةِ وَقَعَ عَنْهَا اهـ أَيْ نَوَى فِي الَّذِي وَجَبَ التَّصَدُّقُ بِهِ لِجَهْلِ أَرْبَابِهِ، وَفِيهِ تَقْيِيدٌ لِقَوْلِ الظَّهِيرِيَّةِ: رَجُلٌ دَفَعَ إلَى فَقِيرٍ مِنْ الْمَالِ الْحَرَامِ شَيْئًا يَرْجُو بِهِ الثَّوَابَ يَكْفُرُ، وَلَوْ عَلِمَ الْفَقِيرُ بِذَلِكَ فَدَعَا لَهُ وَأَمَّنَ الْمُعْطِيَ كَفَرَا جَمِيعًا۔ (شامی : ٢/٢٩٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی القعدہ 1444

2 تبصرے: