سوال :
محترم المقام! عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جمعہ کے بیان میں اکثر مشہور مقرر اپنی تقاریر کو نماز جمعہ کے متعینہ وقت سے زیادہ طول دینے کے عادی ہوگئے ہیں، جبکہ اوقاتِ نماز بورڈ پر بھی واضح لکھا ہوتا ہے۔ اور مقرر بھی مسجد میں نصب گھڑی دیکھتا رہتا ہے کہ مقررہ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟ جبکہ عام دنوں میں ہر نماز میں اوقاتِ اذان و جماعت کی پابندی حسبِ معمول ہوا کرتی ہے، تو یہ پابندی نمازِ جمعہ میں کیوں نہیں؟ کیا مقرر اچھا ہے تو طے شدہ وقت کی پابندی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے حساب سے "کھینچ" سکتا ہے؟ کسی عالم سے سنا تھا کہ ہر مسجد کے ذمہ داران اوقاتِ اذان و نماز کو متعین کرتے ہیں تو وہ ایک قسم کا معاہدہ ہوجاتا ہے، مصلیان بھی اس متعینہ وقت کو تسلیم کرتے ہوئے نماز کے لیے آتے ہیں۔ دو تین منٹ کی تاخیر میں حرج نہیں ہوتا لیکن پندرہ بیس منٹ تک اپنی تقریر کو طول دینا اور وہ بھی بار بار گھڑی کی طرف بھی نظر کرتے ہوئے۔ کیا اپنی تقریر کے لیے زائد وقت لینا معاہدہ شکنی نہیں ہے؟ کیا یہ عمل مناسب ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے شہر میں فی الحال جمعہ کی پہلی اذان، تقریر، خطبہ اور نماز کی ادائیگی دو طرح کے اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔
ایک طریقہ تو یہ ہے جو بعض مساجد میں اختیار کیا گیا ہے کہ پہلی اذان سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل تقریر شروع ہوتی ہے اور پہلی اذان تک چلتی رہتی ہے، جیسے ہی اذان کا وقت ہوتا ہے اذان دے دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مقرر اذان کے اختتام تک اپنی بات بہرحال سمیٹ لیتا ہے۔ پھر سنت کے لیے وقفہ ہوتا ہے اس کے بعد مقررہ وقت پر دوسری اذان، خطبہ اور نماز ہوجاتی ہے۔ جس میں تکلیف دہ تاخیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طریقہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اذانِ اول اور ثانی کے درمیان وقفہ کم ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ پہلی اذان کے فوراً بعد ہی مسجد پہنچ جاتے ہیں، اور اس قرآنی حکم کی پامالی سے بھی بچ جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جمعہ اذان کے بعد خرید و فروخت بند کرکے نماز کے لیے سعی کی جائے۔ جسے فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ اسی کے ساتھ اذانِ اول کے فوراً بعد مسجد پہنچنے کی فضیلت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ جبکہ پہلی اور دوسری اذان میں وقفہ زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ نماز کی تیاری کو چھوڑ کر دیگر کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ طریقہ بڑا محفوظ اور مامون ہے، لیکن یہ طریقہ اب تک ان مساجد میں رائج ہے جہاں نماز اول وقت میں ہوتی ہے، دیگر عام اوقات والی مساجد میں بھی اس کا تجربہ ہونا چاہئے اور لوگوں کو اس کے فوائد بتانا چاہئے، ان شاء اللہ نماز میں تاخیر ہونے کا مسئلہ بالکل ختم ہوجائے گا۔
دوسرا طریقہ وہ ہے جو شہر کی بقیہ تمام مساجد میں رائج ہے کہ پہلے اذان ہوتی ہے، کچھ توقف کے بعد یا پھر فوراً تقریر شروع ہوجاتی ہے، تقریر ختم ہونے کے بعد سنت کا وقت دیا جاتا ہے، پھر اذانِ ثانی، خطبہ اور نماز ہوتی ہے۔ اس صورت میں ہی عموماً مقررین سے تاخیر ہوتی ہے، چنانچہ یہ تاخیر کبھی کبھار تین سے پانچ منٹ تک ہوتو اسے عذر کہا جاسکتا ہے، کیونکہ بعض مرتبہ مقرر کو وقت کا اندازہ نہیں ہوپاتا یا پھر کوئی اہم بات بیان کی جارہی ہے جس کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ بات ادھوری رہ جانے کی وجہ سے اس کا غلط مطلب نہ سمجھ لیا جائے، البتہ وقتِ مقررہ سے تاخیر کا معمول بنالینا اور متعینہ وقت کی پاسداری نہ کرنا بلاشبہ وعدہ خلافی ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ عہد اور وعدہ کی ایک قسم وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا پورا کرنا واجب ہے اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطلاع کرکے ختم کردینا واجب ہے۔ جن معاہدات کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ عدالت میں دعویٰ کرکے اس کو پورا کرنے پر مجبور کرے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کردوں گا تو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے، اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کراسکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلافِ ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہوگا۔ (مستفاد : معارف القرآن)
ذکر کردہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت کا بورڈ لگادینا یک طرفہ وعدہ کی قبیل سے ہے جس کی پابندی کرنا ضروری ہے خواہ مقرر معروف یا غیرمعروف ہو۔ اور دس پندرہ منٹ تاخیر کرنا تو بالکل بھی جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے مصلیان کو غیرمعمولی تکلیف ہوگی جو ایذائے مسلم میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔
قال اللہ تعالٰی : وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ۳۴)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۳۳)
قال الملا علی القاری ان من وعد ولیس من نیتہ ان یفی فعلیہ الاثم سواء وفی بہ اولم یف فانہ من اخلاق المنافقین۔ (مرقاۃ : ۴؍۶۴۷، باب الوعد)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائي، رقم : ۴۹۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی القعدہ 1444
بہت اہم اور عام مسئلہ ہے خاص طور پر معروف مقررین و خطیب حضرات تک پہنچایا جاے
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کے علم میں برکت عطا فرمائے
ماشاءاللہ بہت ہی اہم اور ضروری موضوع پر مدلل جواب ہے
جواب دیںحذف کریں