سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ذکیہ راحت جو خود عاقلہ بالغہ اور مسلک احناف کی عالمہ بھی ہے، اپنی رضا و رغبت، عقل و شعور اور دور اندیشی کے ساتھ مکمل کفو کے اندر والد کی مرضی کے خلاف اپنے چچا زاد بھائی محمد راغب جو عاقل بالغ اعلی دینی و عصری تعلیم یافتہ حنفی عالم دین اور باشعور ہے، سے دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں 10 اکتوبر 2022 بروز سوموار بوقت 9:29 بجے دن بعوض مہر فاطمی ایجاب و قبول کرکے اپنا نکاح کیا، بعدہ خلوت صحیحہ بھی کیا۔ اب لڑکی ذکیہ راحت کے والد اس نکاح سے راضی نہیں ہیں اور نکاح کو تسلیم کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہیں، اور لڑکی کی رضا مندی کے بغیر بزور زبردستی ظلمًا دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ۔۔ نکاحِ منکوحۃ الغیر مع العلم بانھا متزوجۃ باطل (درمختار) مسلم ہے۔ لہٰذا قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایا جائے کہ (١) ذکیہ راحت کا نکاح محمدراغب سے جائز ودرست ہوا یا نہیں؟ (٢) پہلا نکاح باقی رہتے ہوئے ذکیہ راحت کا نکاح دوسر ے لڑکے سے جائز ہوگا یا نہیں؟(٣) محمد راغب کے نکاح میں رہتے ہوئے ذکیہ راحت کا زبردستی دوسرے لڑکے سے کیے ہوئے نکاح سے پیدا اولاد حرامی ہوگی یا حلالی؟ (٤) پہلا نکاح باقی رہتے ہوئے ذکیہ راحت کے والد محمد ظفر کا زبردستی نکاح کرانا باعث ثواب ہوگا یا عذاب؟ مدلل و محول جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد ثاقب قاسمی، دربھنگہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ لڑکی ذکیہ راحت عاقلہ، بالغہ ہے تو دو گواہوں کی موجودگی میں اور کفو میں ہونے والا اس کا نکاح بلاشبہ منعقد ہوگیا ہے۔
٢) ذکیہ راحت کا نکاح جب شرعی اصولوں کے مطابق محمد راغب سے منعقد ہوچکا ہے اور وہ اس کی زوجیت میں باقی ہے تو اب اس کا کہیں دوسری جگہ نکاح نہیں ہوسکتا۔
٣) منکوحۃ الغیر سے پیدا شدہ بچے کے نسب کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر شوہر ثانی کو شادی شدہ عورت سے نکاح کرتے وقت یہ بات معلوم تھی کہ وہ فلاں کی منکوحہ ہے، تو اس بچے کا نسب شوہر ثانی سے نہیں، بلکہ شوہر اول سے ثابت ہوگا، اور اگر شوہر ثانی کو اس کے منکوحۃ الغیر ہونے کی خبر نہیں تھی، تو اس صورت میں یہ وطی بالشبہ کے درجہ میں ہوگی اور بچے کا نسب شوہر ثانی سے ثابت ہوگا۔
٤) ذکیہ راحت کا پہلا نکاح باقی رہتے ہوئے ان کے والد محمد ظفر کا ان کا دوسرا نکاح کرانا یا اس کی کوشش کرنا سب ناجائز اور حرام ہوگا جو بلاشبہ باعث عذاب ہوگا۔ لہٰذا انہیں اس سنگین جرم سے باز رہنا چاہیے۔
١) الحرۃ العاقلۃ البالغۃ إذا زوجت نفسہا من رجل ہو کفو لہا أو لیس بکفو لہا، وفي الخانیۃ : بکرًا کانت أو ثیبًا، نفذ النکاح في ظاہر روایۃ أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وہو قول أبي یوسف آخرًا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴؍۱۰۰ رقم: ۵۶۴۴ زکریا، کذا في الہدایۃ ۲؍۳۱۳)
٢) ومنہا أن لا تکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالیٰ: {وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ} عام في جمیع ذوات الأزواج۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال في ہٰذہ الآیۃ: ’’کل ذات زوج إتیانہا زنا إلا ما سبیت‘‘۔ … ولأن اجتماع رجلین علی امرأۃ واحدۃ یفسد الفراش؛ لأنہ یوجب اشتباہ النسب وتضییع الولد وفوات السکن والإلفۃ والمودۃ فیفوت ما وضع النکاح لہ۔ (بدائع الصنائع / بیان عدم جواز نکاح معتدۃ الغیر ۲؍۵۴۸-۵۴۹ زکریا)
ولایجوز نکاح منکوحۃ الغیر ومعتدۃ الغیر عند الکل۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴؍۱۶۶ زکریا)
٣) ولو تزوج بمنکوحۃ الغیر وہو لا یعلم أنہا منکوحۃ الغیر فوطئہا تجب العدۃ، وإن کان یعلم أنہا منکوحۃ الغیر لا تجب حتی لا یحرم علی الزوج وطؤہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۳۴۶)
الأصل في ہذا أن کل امرأۃ۔۔۔۔۔إلا إذا علم یقیناً أنہ منہ وہو أن یجيء لأقل من ستۃ أشہر، وکل امرأۃ وجبت علیہا العدۃ، فإن نسب ولدہا یثبت من الزوج الخ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۵۳۷)
٤) والأصل أن من اعتقد الحرام حلالاً، فإن کان حراماً لغیرہ کمال الغیر لا یکفر، وإن کان لعینہ،فإن کان دلیلہ قطعیًّا کفر وإلا فلا۔ (البحر الرائق، کتاب السیر / باب أحکام المرتدین ۵؍۲۰۶ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں