منگل، 9 مئی، 2023

ایک امام ایسا بھی .....!

تحریر : عمران الحسن سر، مالیگاؤں

مکرمی شہریان کرام
چونکہ ہمارا شہر مسجدوں، میناروں کا شہر ہے، اس لئے ہمارے شہر میں ماشاءاللہ سینکڑوں حفاظ کرام، ائمہ کرام، علماء کرام اور مفتیان کرام موجود ہیں اور ان تمام سے اکثر و بیشتر شہریان فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ ان تمام میں ایک گراں قدر نام آتا ہے حافظ و مفتی محمد عامر عثمانی ملی صاحب (امام کوہ نور مسجد) کا، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ آنجناب سال بھر ہو جاتا ہے ایک وقت بھی چھٹی نہیں لیتے، یہاں تک کہ انکے نکاح کے دن بھی پنج وقتہ نمازیں خود پڑھائی۔
گزشتہ جمعہ کو عصر میں اچانک انکی غیر حاضری سے راقم نے ان سے رابطہ قائم کیا تو پتہ چلا کہ موصوف انتہائی شدید بخار، الٹی، اور ضعف میں مبتلا ہیں، مگر یہ کیا، عشاء میں پھر آگئے اور نماز پڑھائی (بڑی مشکل سے امامت کی یہ انہوں نے بعد میں بتایا)۔
ان حالات کو جاننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ حضرت کے اندر کس درجہ کا شوق ہے، جذبہ ہے۔ اسی شوق و جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مولانا موصوف سے انٹرویو کی گزارش کی، جسے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال : آپ کی تاریخ پیدائش بتائیں اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں مختصراً بتائیں۔
جواب : میری تاریخ پیدائش 26 دسمبر 1989 ہے۔ عصری تعلیم کی بات کی جائے تو موتی پرائمری اسکول میں kg سے لے کر ساتویں جماعت تک تعلیم ہوئی، اور اسی کے ساتھ ساتھ رحمانی مسجد (نیاپورہ) میں شہر کے صف اول ماہر فن قاری، قاری رضوان صاحب پریاگی دامت فیوضھم کے پاس نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن مجید بالتجويد مکمل ہوا۔

ساتویں جماعت تک اسکول پڑھنے کے بعد پھر اسکولی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا گیا، اور مدرسہ عثمانیہ میں حفظ کے لیے داخلہ لیا۔ یہ 2003 کی بات ہے۔ 2005 میں وہاں سے حفظ سے فراغت ہوئی۔ الحمدللہ استاذ محترم حافظ عرفان صاحب اشاعتی کی ایسی محنت رہی کہ ایک نشست میں مکمل قرآن مجید سنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی الحمدللہ تراویح میں قرآن سنانے کے لیے بہت محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ آپ نے خود واٹس اپ گروپ پر مشاہدہ کیا ہوگا کہ رمضان المبارک میں فتاوی کی مشغولی مزید بڑھ جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود تراویح میں قرآن سنانے میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آتی۔ الحمدللہ علی ذالک

سوال : اسکے بعد افتاء اور عالمیت کی تکمیل کہاں سے کی؟
جواب : حفظ سے فراغت کے بعد استاذ محترم مولانا عمران اسجد ندوی کے کہنے پر عالمیت کے لیے مدرسہ اسلامیہ میں داخلہ لیا۔ چونکہ داخلہ مولانا کی وجہ سے ہی لیا گیا تھا اس لیے مولانا کی وہاں سے علیحدگی کے بعد وہاں رہنا مناسب نہیں رہا۔ چنانچہ وہاں ایک سال پڑھنے کے بعد پھر چند علماء وحفاظ کے مشورہ سے مولوی نعیم الرحمن ملی (امام وخطیب جونی مسجد، بیلباغ) کی رہنمائی میں مدرسہ معہد ملت میں عربی دوم میں داخلہ لیا۔ اور وہاں سے عالمیت اور افتاء کی تکمیل ہوئی۔ یعنی از اول تا آخر مکمل تعلیم مالیگاؤں میں ہی ہوئی، تحصیل علم کے لیے شہر سے باہر جانے کا موقع نہیں ملا۔

سوال : کوہ نور مسجد میں امامت کی شروعات کب سے ہوئی؟
جواب : جس سال تخصص فی الافتاء میں زیر تعلیم تھا، اسی سال اکتوبر 2012 میں مسجد کوہ نور میں تقرر ہوا۔

سوال : آپکے بارے میں مصلیان کا کہنا ہے کہ سال سال بھر ہو جاتا ہے آپ چھٹی نہیں لیتے، کیا کہنا چاہیں گے اس بارے میں؟
جواب : فجر کی الحمدللہ پابندی ہوتی ہے۔ سال بھر میں ایک یا دو ناغہ ہوتا ہے۔ اور کسی سال ایک ناغہ بھی نہیں ہوتا، بقیہ نمازوں میں بھی الحمدللہ پوری پابندی کی کوشش ہوتی ہے۔ سال بھر میں ایک آدھ مرتبہ کبھی سفر ہوجائے یا کہیں پروگرام ہوتو ایک دو وقت کی نمازوں میں غیرحاضری ہوتی ہے۔ اور میری اس پابندی کے پیچھے میرے مشفق والدین کا بھی بڑا ہاتھ ہے کہ وہ خود بھی بڑی پابندی سے فجر ادا کرتے ہیں اور مجھے بھی جگا دیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر عافیت کے ساتھ قائم رکھے۔ آمین

نمازوں کی پابندی کو لے کر میں یہ سوچتا ہوں کہ نماز تو بہرحال پڑھنا ہی ہے۔ اس لیے اگر دو چار منٹ مسجد پہنچنے کے لیے لگ رہا ہے تو کیوں نہ اپنی مسجد میں ہی نماز پڑھی جائے، اور خود کی نماز کے ساتھ نماز پڑھانے کا ثواب بھی حاصل کیا جائے۔

سوال : سننے میں آیا تھا کہ جس دن آپکا نکاح تھا اس روز بھی آپ نے امامت کے فرائض انجام دئیے۔
جواب : نمازوں میں بالخصوص فجر کی نماز کی پابندی میں میرے لیے نمونہ حافظ ریاض صاحب دامت برکاتہم (سابق امام سلیمانی مسجد) اور میرے جگری دوست جو مجھ سے عمر میں کافی بڑے بھی ہیں مولوی نعیم الرحمن ملی (امام جونی مسجد، بیلباغ) جن کی نمازوں کی پابندی مثالی ہے۔
جی ہاں۔ الحمدللہ نکاح والے دن بھی فجر سمیت بقیہ نمازوں میں حاضری ہوئی تھی۔ اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں تھا۔

سوال : دارالافتاء آن لائن کا وجود کس طرح عمل میں آیا؟
جواب : اس علمی، فقہی اور مفید سلسلہ کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ ہمارے ایک رفیق مولانا نعیم الرحمن صاحب ملی ندوی (امام مسجد عثمان ابن عفان) نے اگست 2016 میں ایک واٹس اپ گروپ بنام دارالافتاء تشکیل دیا۔ اس گروپ میں آپ نے چند سنجیدہ افراد کو شامل کیا اور ساتھ میں ہی چند مفتیان کرام کو بھی شامل کرلیا۔ اور اس کے اصول وضوابط یہ طے کیے گئے کہ جن اراکین کو کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہو وہ گروپ میں لکھ کر ارسال کردے گا جس کا جواب گروپ میں موجود مفتیان کرام اپنی سہولت سے مختصر انداز میں ان شاء اللہ دے دیں گے۔ یہ سلسلہ چند مہینوں تک چلتا رہا، ابتداء میں بندہ جوابات اس طرح دیا کرتا تھا کہ مطبوعہ فتاوی کے اسکرین شاٹ لے کر گروپ میں ارسال کردیا کرتا تھا، اس کے بعد مختصر انداز میں جواب لکھنے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد جب مزید کچھ ہمت اور مہارت ہوئی تو مدلل جواب لکھنے کی سعی کی گئی جس کی تصدیق و تائید گروپ میں موجود دیگر جید اور تجربہ کار مفتیان کرام کی طرف سے ہوتی رہی۔ اور انہیں کی طرف سے یہ کہا گیا تھا آپ اچھے انداز سے گروپ کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں، لہٰذا آپ اس مبارک سلسلے کو جاری رکھیں اور محنت کرتے رہیں ان شاءاللہ آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور دوسروں کو دین کا علم سیکھنے میں آسانی ہوگی۔ چنانچہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مدلل جوابات لکھنے کو اپنی مصروفیات کا ایک حصہ بنالیا جس کا سلسلہ الحمدللہ تا حال جاری ہے۔

ہمارے گروپ دارالافتاء کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی اس کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ جو خود سے شامل ہونا چاہے اس کا مکمل تعارف لے کر شامل کیا جاتا ہے اور گروپ کے اصول وضوابط پرعمل کا انہیں پابند بنایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سالوں سے ہمارا گروپ بغیر کسی اختلاف اور انتشار کے عافیت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ اور اس کا دائرہ بڑھ کر ایک گروپ سے چار گروپ ہوگئے ہیں جس میں ایک ہزار سے زائد اراکین ہیں۔ اور عثمانی دارالافتاء (بلاگ) پر مدلل جوابات اور مضامین کی تعداد 1700 سے زائد ہے، جس پر روزآنہ ہزاروں کی تعداد میں وویوز ہوتے ہیں، جن کی کل تعداد تقریباً 27 لاکھ ہے۔ الحمدللہ

سوال : آپ اپنے مفتی ہونے کا (افتاء کا) مقصد بتائیں گے؟
جواب : افتاء کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اس سے خود اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی اصلاح کا زیادہ موقع ملے گا، کیونکہ مسائل کے سلسلے میں لوگوں میں بڑی غفلت پائی جاتی تھی۔ اہل علم سے پوچھے بغیر اپنی سمجھ سے عمل کرنے کا رجحان تھا، لیکن الحمدللہ سوشل میڈیا کے ذریعہ سوالات کی سہولت کی وجہ سے اب یہ رجحان بن گیا ہے کہ لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی اب پوچھ کر عمل کرتے ہیں۔

سوال : سیاست میں پڑھے لکھے افراد، علماء کرام، دانشورانِ قوم کو آنا چاہیے یا نہیں؟ کس طرح کی سیاست آپ ان سے چاہتے ہیں ؟
جواب : سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کی خدمت کا ایک اہم شعبہ ہے۔ لہٰذا جو بھی قوم کی خدمت اور وطن کی ترقی کی فکر اور جذبہ رکھتا ہو، نیز اسے اس شعبہ کی معلومات بھی ہوتو اسے ضرور سیاست میں آنا چاہیے۔ اور اگر معاذ اللہ کسی نیت مال کمانے کی ہوتو پھر اسے سیاست سے دور رہنا چاہیے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ کیونکہ اس میں مال کمانے کے تقریباً تمام راستے ناجائز اور حرام ہیں۔

سوال : آپ کے دارالافتاء آن لائن چلنے سے ایک فائدہ عوام کو یہ ہے کہ جو آپکے گروپ میں شامل ہیں وہ بھی اور جو نہیں ہیں وہ بھی دوسروں کے ذریعے بلا جھجھک شرعی مسائل کا حل فوراً آپ سے حاصل کر لیتے ہیں ، یہی چیز کچھ سال قبل کاغذ پر لکھ کر دارالافتاء آفس جا کر دینا پڑتا تھا اور اسکے جواب کا انتظار کرنا پڑتا تھا، آپ روزانہ کتنے سوالوں کے جواب دیتے ہیں؟
جواب : نئے مدلل جوابات روزآنہ دو سے زائد نہیں لکھتا ہوں۔ اور مختصر جوابات دسیوں ہوتے ہیں، پھر ایسے سوالات بھی ہوتے ہیں جن کے جوابات پہلے سے لکھے ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد بھی روزآنہ دسیوں ہوتی ہے۔ بیسیوں فون کالز ہوتی ہیں۔ اور یہ سب کام بفضل اللہ کئی سالوں سے جاری ہیں۔

سوال : آپ مسجد و مدرسہ خلیفہ اول میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، ذرا اس بارے میں کچھ بتائیں۔
جواب : نو سال سے مدرسہ خلیفہ اول میں حفظ کلاس پڑھا رہا ہوں۔ اب تک 27 بچے حفظ قرآن کی تکمیل کرچکے ہیں، جن میں سے چھ بچوں نے ایک دن میں قرآن مجید سنانے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اور تقریباً تمام بچے تراویح سنارہے ہیں اور دینی یا عصری تعلیم وتعلم سے جڑے ہوئے ہیں۔
اور ہاں
پابندی کی بات صرف امامت کی حد تک نہیں ہے بلکہ مدرسہ خلیفہ اول میں تینوں وقت حفظ کلاس کی ذمہ داری ہے، وہاں بھی الحمدللہ پابندی ہے جس کی وجہ سالانہ جلسہ پر پابندی کی وجہ سے مدرسہ کی طرف سے انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔

سوال : عوام الناس کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب : عوام الناس کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں، تخریبی کاموں سے اپنے آپ کو بچائیں، نوجوانوں کا ایک طبقہ دن ورات لاحاصل سیاسی بحث میں اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کررہا ہے۔ اور صرف شخصیت پرستی مبتلا ہے۔ اپنے لیڈر کی بری بات بھی اسے اچھی لگتی ہے اور سامنے والے لیڈر کی اچھی بات بھی اسے بری لگتی ہے۔ یہاں تک کہ علماء بھی سیاسی پارٹیوں کے مطابق طے کیے جا رہے ہیں، جو عالم ان کے مطابق بات کرے تو وہ عالم ہے، اگر کوئی ان کے خلاف کبھی بات کردے تو وہ عالم نہیں ہے۔ اس کی عزت ان کے لیے حلال ہوجاتی ہے اور وہ اس کی شان میں گستاخی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لہٰذا ہماری ایسے نوجوانوں سے عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ خدارا اپنے سونے جیسے قیمتی اوقات کو ان فضول بحثوں میں ضائع نہ کریں، اور سیاست کی بنیاد پر کسی بھی عالم کی شان میں گستاخی نہ کریں کہ یہ دین ودنیا دونوں میں خسارے کا سبب بنے گی۔

دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ٹوٹی، پھوٹی خدمات کو اپنے فضل وکرم سے قبول فرمائے، استقامت عطا فرمائے، اور ہم سب کی مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ آمین یا رب العالمین

جی حضرت
آپ کا بہت بہت شکریہ
اس انٹرویو کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو اچھے عمل کی ترغیب ملے۔

3 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ ..اللہ آپ کو تا حیات ان اعمال پر ثابت قدم رکھے اور اسی طرح دین کی خدمت کا جذبہ قائم و دائم رکھے

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللہ رب العزت مفتی صاحب کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور عافیت کے ساتھ مزید استقامت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. انصاری محمود11 مئی، 2023 کو 2:06 AM

    ماشاء اللہ

    جواب دیںحذف کریں