سوال :
محترم مفتی صاحب ! جوتا چرائی کی رسم کے بارے میں بتائیں کہ یہ کہاں سے آئی ہے؟ چلتے رہنا چاہیے یا فضول ہے، بند کر دینی چاہیے؟ نکاح ہونے کے بعد بچوں اور نوجوانوں کا گروپ مسجدوں میں بہت شور کرتا ہے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض علاقوں میں چوتا چھپائی کی رسم بیوی کی بہنوں کے ذریعے انجام دی جاتی ہے جس کے ناجائز اور حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس میں غیرمحرم عورتوں سے ہنسی مذاق کی نوبت آتی ہے۔
بعض علاقوں میں یہ رسم مردوں یعنی بیوی کے بھائیوں کے ذریعے انجام دی جاتی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس رسم کا تعلق اسلام سے بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوانہ رسم ہے، اور احادیث میں مسلمانوں کو غیرمسلموں کے طور طریق اور رسموں کو اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے، نیز اس میں ہونے والے شور شرابہ کی وجہ سے مسجد کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا اس فضول اور ناجائز رسم سے بچنا ضروری ہے۔
نوٹ : الحمدللہ بڑی تعداد میں دیندار اور سمجھدار افراد کی طرف سے اس رسم کو بند کردیا گیا ہے۔ تاہم اب بھی بہت سے لوگ اس رسم کو انجام دیتے ہیں، لہٰذا انہیں اس پر توجہ دینا چاہیے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیس منا من تشبہ بغیرنا لا تشبہوا بالیہود ولا بالنصاریٰ۔ (سنن الترمذي : ۲/۹۹)
عن ابن عمر قال قال رسول اﷲﷺ من تشبہ بقوم فھو منھم۔(سنن ابی داؤد : ۲۰۳/۲)
عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔ (صحیح ابن حبان : ۲۷۵/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1444
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںاللّٰہ آپ کے علم میں برکت عطا فرما
جواب دیںحذف کریں