سوال :
مفتی صاحب ! قرآن مجید پڑھ کر مرحومین کو بخشنا کیسا ہے؟میرا ایک دوست ہے وہ اس پر دلیل یا حدیث مانگ رہا ہے؟ اسکا کہنا ہے کہ یہ عبادت میں شامل ہے۔ قرآن پڑھ کر مرحوم کو بخشا نہیں جا سکتا۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن پڑھ کر مرحومین کو ایصال ثواب کرنا اور بخشنا جائز و درست ہے۔ اس پر جمہور اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے، کسی بھی حدیث سے اس کی ممانعت ثابت نہیں ہے، جبکہ متعدد روایات سے مرحوم تک اچھے اعمال کا ثواب پہنچنا ثابت ہے، جس میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے مردوں پر سورہٴ یاسین پڑھا کرو۔ (ابوداوٴد)
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انصار میں جب کوئی فوت ہوجاتا، تو وہ اس کی قبر پر جاکر قرآن پڑھا کرتے تھے۔ (مرقاۃ)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی تلاوت قرآن کے ذریعے ایصال ثواب کرنے کی صراحت کی ہے اور علامہ ابن تیمیہ نے عبادات بدنیہ کے ذریعے ایصال ثواب جائز ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ (کتاب الروح)
سوال نامہ میں مذکور آپ کے دوست کی بات خود اسی کے خلاف دلیل ہے۔ کیا صدقات یعنی کسی غریب کو کچھ دینا عبادت نہیں ہے؟ تو پھر صدقات کا ثواب مرحومین کو کیسے پہنچتا ہے؟ کیا حج وعمرہ عبادت نہیں ہے؟ جبکہ ان کا ثواب مرحومین کو بلاشبہ پہنچتا ہے، اس سلسلے میں صریح احادیث ہیں، نہ جانے آپ کے دوست کیا کہنا چاہ رہے؟ ان کا اعتراض ہماری سمجھ کے باہر ہے۔
حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما سے یہ بات منقول ہے کہ تلاوت وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچتا، لیکن فقہ شافعی کی کتابوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ اگر ان عبادات کو انجام دے کر آدمی یہ دعا کرلے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ثواب فلاں کو پہنچادے تو اس اعتبار سے انجام کار اس کا ثواب دوسرے کو پہنچ جائے گا اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ (البحر العمیق)
لہٰذا قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے یا بعد میں یہ نیت کرلی جائے کہ اللہ تعالٰی اس پر ملنے والا اجر فلاں اور فلاں کو عطا فرما، تو سب کو اس کا ثواب پہنچ جائے گا۔ اور ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے، اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے۔
فہذہ الآثار وما قبلہا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وہو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللّٰہ بہ مبلغ التواتر۔ (فتح القدیر : ۱۴:۳)
وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: “لا یصوم أحد عن أحد ولا یصلی أحد عن أحد أی: فی حق الخروج عن العہدة لا فی حق الثواب فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات أو الأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنة والجماعة ۔۔۔۔ وعلیہ عمل المسلمین من لدن رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - إلی یومنا ہذا من زیارة القبور وقرائة القرآن علیہا والتکفین والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابہا للأموات، ولا امتناع فی العقل أیضا لأن إعطاء الثواب من اللہ تعالی إفضال منہ لا استحقاق علیہ، فلہ أن یتفضل علی من عمل لأجلہ بجعل الثواب لہ کما لہ أن یتفضل بإعطاء الثواب من غیر عمل رأسا۔ (بدائع الصنائع: ٢/ ۲۵۴)
وأما قرائة القرآن وإہداوٴہا لہ تطوعا بغیر أجرة فہذا یصل إلیہ کما یصل ثواب الصوم والحج۔ (کتاب الروح لابن القیم: ص ۲۱۱)
لا نزاع بین علماء السنة والجماعة فی وصول ثواب العبادات المالیة، والصواب أن الأعمال البدنیة کذلک۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیة : ۲۴/۳۶۶)
محل الخلاف مالم تخرج القراء ۃ مخرج الدعاء بان یقول قبل قراء تہٖ ’’اللّٰہم اجعل ثواب ما اقرؤ ہ لفلان‘‘ فاذا خرجت مخرج الدعاء کان الثواب لفلانٍ قولاً واحداً جاز ذٰلک من غیر خلافٍ۔ (حاشیۃ: البحر العمیق ۴؍۲۲۴۱-۲۲۴۲)
والمعتمد فی المذاہب الأربعة أن ثواب القراء ة یصل إلی الأموات؛ لأنہ ہبة ودعاء بالقرآن الذی تتنزل الرحمات عند تلاوتہ، وقد ثبت فی السنة النبیوة وصول الدعاء والصدقة للمیت، وذلک مجمع علیہ۔ (التفسیر المنیر للدکتور وہبة الزحیلی ۱۴: ۱۴۰)
تفصیل کے لیے دیکھیے : (دیکھئے : ایصال ثواب بالقرآن موٴلفہ: مولانا محمد اطہر صاحب کریم نگری، ناشر ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد ص ۲۴، ۲۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1444
دلیل مانگنے والا یقینا غیر مقلد ہوگا
جواب دیںحذف کریںmasha allah
جواب دیںحذف کریں