اتوار، 28 مئی، 2023

کیا جوئے میں ہاری ہوئی رقم قرض ہے؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ایک شخص جو کہ پہلے بہت غلط کاموں میں ملوث تھا اب توبہ کرچکا ہے، لیکن اس وقت کا اس پر بہت قرض ہے اور پورا کا پورا قرض حرام کھیل جیسے جوا اور آن لائن بیٹنگ، کیرم، سٹہ مٹکہ وغیرہ کھیلنے کا قرض ہے۔ جیسے کرکٹ میں بیٹنگ کیے اور ہار گئے اور جس سے ہارے اس کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے تو کہہ دیا کہ بعد میں دیں گے اور اب تک نہیں دئیے۔ اب وہ شخص تائب ہوچکا ہے۔ اس میں سے کچھ لوگ یہ رقم مانگ رہے ہیں تو کیا ایسا قرض ادا کرنا ضروری ہے؟ جبکہ اس کی کمائی اب پوری حلال ہے تو کیا حرام قرض حلال کمائی سے ادا کرسکتے ہیں؟ اور کچھ لوگ وہ ہیں جو مانگ بھی نہیں رہے تو کیا قرض ہونے کی وجہ سے ادا کرنا ضروری ہے؟ جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی جاوید، کوپرگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآنِ کریم میں قمار اور جوئے کو حرام اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے، اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جوا کھیلنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ لہٰذا جس نے جوئے کی کوئی بھی قسم کھیلی ہو، اسے فوراً اس سے باز آجانا چاہیے اور اس پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

قمار اور جوئے میں جیتی گئی رقم کا لینا ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا جس طرح جیتی ہوئی رقم لینا جائز نہیں ہے اسی طرح ہاری ہوئی رقم کا دینا بھی جائز نہیں ہے۔ چنانچہ صورتِ مسئولہ میں اس شخص کے لیے ہاری ہوئی رقم دینے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ دینا ہی نہیں ہے، اگر دے گا تو گناہ گار ہوگا۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۲۱۹)

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ حرّم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۲؍۳۵۱ رقم: ۶۵۱۱ دار إحیاء التراث، بیروت)

وَعَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ : «لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ عاقٌّ ولا قَمّارٌ ولا مَنّانٌ ولا مُدْمِنُ خَمْرٍ. رَواهُ الدّارِمِيُّ وفِي رِوايَةٍ لَهُ: ولا ولَدَ زِنْيَةٍ بَدَلَ قَمّارٍ»

(وعَنْهُ) أيْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ (عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ: لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ) أيْ مَعَ الفائِزِينَ السّابِقِينَ أوِ المُرادُ مِنهُ المُسْتَحِلُّ لِلْمَعاصِي أوْ قَصَدَ بِهِ الزَّجْرَ الشَّدِيدَ، وقالَ الطِّيبِيُّ: هُوَ أشَدُّ وعِيدًا مِن لَوْ قِيلَ: يَدْخُلُ النّارَ؛ لِأنَّهُ لا يُرْجى مِنهُ الخَلاصُ (عاقٌّ) بِتَشْدِيدِ القافِ أيْ مُخالِفٌ لِأحَدِ والِدَيْهِ فِيما أُبِيحَ لَهُ بِحَيْثُ يَشُقُّ عَلَيْهِما (ولا قَمّارٌ) بِتَشْدِيدِ المِيمِ أيْ ذُو قِمارٍ والمَعْنى مَن يُقامِرُ والقِمارُ فِي عُرْفِ زَمانِنا كُلُّ لَعِبٍ يُشْتَرَطُ فِيهِ غالِبًا أنْ يَأْخُذَ الغالِبُ مِنَ المُلاعِبِينَ شَيْئًا مِنَ المَغْلُوبِ، كالنَّرْدِ والشِّطْرَنْجِ وأمْثالِهِما۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٦/٢٣٨٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی القعدہ 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں