سوال :
مفتی صاحب ! ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ مکہ میں ایک بڑھیا تھی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کچرا پھینکا کرتی تھی، پھر ایک دن اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کچرا نہیں پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور آپ نے اسے تسلی دی، تو وہ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی۔ کیا واقعہ ثابت ہے؟ کیونکہ کہیں پڑھنے میں آیا ہے کہ یہ واقعہ درست نہیں ہے تو کیا اس واقعہ کا بیان کرنا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد امین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں ہمارے اور آپ کے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز بتایا گیا ہے۔
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تو آپ کے اخلاق انتہائی کریمانہ تھے ہی، دشمنوں کے ساتھ بھی آپ نے ایسے اخلاق کا مظاہرہ پیش کیا ہے کہ دنیا اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، سالوں سخت تکالیف پہنچانے والے دشمنوں کو فتح مکہ کے موقع پر دو جملوں میں معاف کردینے اور جوق در جوق مشرکین کے مسلمان ہونے کا ایمان افروز واقعہ ہم سب کو یاد کرلینا چاہیے۔ لیکن سوال نامہ میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف اردو کی کسی نصابی موجود تھا جس سے غالب گمان یہ ہے کہ یہ اردو کے کسی ادیب کا گھڑا ہوا واقعہ ہے جس کے من گھڑت ہونے پر دسیوں بڑے اداروں کے فتاوی موجود ہیں، جن میں سے دو اہم اداروں کے فتاوی ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مستند کتب احادیث میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ملتا؛ لہٰذا اس طرح کی روایت بیان کرنے سے احتراز ضروری ہے۔ (رقم الفتوی : 608029)
جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی کا فتویٰ ہے :
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کو دیکھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، لیکن سوال میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی نبی کریم ﷺ پر ایک عورت کے کچرا پھینکنے کا واقعہ، یہ واقعہ حدیث کی معتبر کتابوں میں نہیں ملتا، بلکہ کسی ضعیف روایت میں بھی اس طرح کا کوئی واقعہ مذکور نہیں ہے، لہٰذا اس واقعہ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 144111200444)
سندی حیثیت کے علاوہ اس واقعہ کے غیرمعتبر ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں :
اول یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی جان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام جو آپ کے وضو کے پانی کو زمین پر نہ گرنے دیتے تھے، جن کی تلواریں آپ کی ادنی سی توہین پر میان سے باہر آجاتی تھیں، کیا وہ ایک بڑھیا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر معاذ اللہ روزآنہ کوڑا ڈالتے ہوئے دیکھتے رہتے، اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے؟
دوسرے یہ کہ اس واقعہ میں خلاف عقل اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں بڑھیا روزآنہ کوڑا پھینکتی ہے، اسی راستے سے روزآنہ گزریں جبکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے :
"لا ينبغي للمؤمن ان يذل نفسه"
یعنی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت و رسوائی میں ڈالے۔ (ترمذی)
درج بالا تفصیلات سے یہ بات روز روزشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے لہٰذا اس کا بیان کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی القعدہ 1444
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںشکرا جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں