سوال :
حضرت مفتی صاحب ! مسجد میں فرض نماز کے سلام پھیرنے کے بعد ذاتی اغراض و ضروریات کیلئے لوگوں (مصلیوں) سے سوال کرنا کیسا ہے؟ کسی بھی مسجد میں جاکر فرض نماز کے بعد دھڑلے سے ذاتی ضروریات کے لئے سوال کرنے لگنا اس صورت میں کہ نہ کسی سے اجازت لئے، نہ اپنی پریشان حالی کا کوئی ثبوت دئیے، کیا ایسا کر سکتے ہیں؟ ایک مصلی ذاتی ضرورت کیلئے سوال کرنے والے شخص سے پوچھ ہی رہے تھے کہ کیا آپ نے کسی سے اجازت لی ہے؟ تو فوراً دوسرے ایک مصلی نے انہیں ڈانٹا، چپ کرایا اور کہا کہ کسی بھی سوال کرنے والے کو روکا مت کرو، کوئی کیسا بھی ہو، اسے سوال کرنے دو، جن کو دینا ہے دیں گے اور جنہیں نہیں دینا ہے وہ نہیں دیں گے۔ کیا بغیر اجازت، بغیر کسی تحقیق کے کسی بھی شخص کو مسجد میں مانگنے دیا جانا چاہئے؟
(المستفتی : احمد سعيد، بھکو چوک، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد اللہ کا گھر ہے جو اس کی عبادت کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں ذاتی ضرورت کے لیے بندوں سے مانگنے کے لیے فرض نمازوں کے بعد اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ امام یا ٹرسٹیان سے اجازت لینے کے بعد بھی اس طرح کے اعلان کی اجازت نہیں ہے۔ بغیر اجازت کے جو لوگ اعلان کرنے لگتے ہیں انہیں اچھے انداز میں منع کردینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ کئی لوگ انہیں منع کرنے میں خود شور شرابہ کرنے لگیں، سوال نامہ میں مذکور باز پرس کرنے والے کو ڈانٹے والے صاحب کا عمل اور ان کی تاویل بھی درست نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں آئندہ اس سے باز رہنا چاہیے۔ اگر واقعی کوئی مستحق اور انتہائی ضرورت مند بندہ آجائے تو ایسے افراد کو اہل خیر حضرات سے ملوا دینا چاہیے اور ان سے خصوصی تعاون کی درخواست کردینا چاہیے۔
أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)
ویحرم فیہ السوال ویکرہ الاعطاء مطلقاً وقیل ان تخطی وانشاد ضالۃ۔ (الدر المختار علی ہامش الشامی : ١/٤٤٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ذی القعدہ 1444
آپ کا واٹس اپ نمبر چاہیے
جواب دیںحذف کریں9270121798
جواب دیںحذف کریں