آؤ کہ لہو رو لیں
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام! جیسا کہ ہم سب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے شہر میں منظم، معیاری مکاتب اور مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔ لیکن یہ شہر مدارس اور مکاتب کا شہر ایسے ہی نہیں بن گیا، بلکہ اس کی پیچھے قربانیاں ہیں جو شروع سے لے آج تک دی جارہی ہیں، ان قربانیوں کو آج آپ حضرات کے سامنے دل کھول کر بیان کرنا ہے تاکہ سب کو حالات کا علم اور کچھ تو احساس ہو۔
معزز قارئین ! سب سے اہم اور بڑی قربانی دینے والے یہاں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ ہیں، جن کی تنخواہیں تشویشناک حد تک کم ہیں۔ لہٰذا دل تھام کر جان لیں کہ پانچ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ چار ہزار، اور سات، آٹھ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں اب بھی سات آٹھ ہزار تک ہیں۔ اور اگر خواتین معلمات کی بات کی جائے تو ان کا زبردست استحصال کیا جارہا ہے اور انہیں مرودں کی بہ نسبت نصف یا اس سے کچھ زیادہ تنخواہ دی جارہی ہے۔ اور پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ میں سال میں ایک مرتبہ دو سو یا تین سو کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اور کسی سال تو اضافہ بھی نہیں ہوتا۔
ماہانہ پانچ چھ ہزار تنخواہ میں یہ لوگ کس طرح سے اپنا گھر خرچ چلا رہے ہیں؟ کس طرح بیماریوں کے علاج کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کررہے ہیں، کس طرح ان کے تہوار گزرتے ہیں؟ کس طرح ان کے یہاں شادی بیاہ کے مراحل طے ہوتے ہیں؟ کیا اتنی تنخواہ میں یہ لوگ مضافات میں بھی اپنا چھوٹا سا ذاتی مکان بناسکتے ہیں؟ ان سب کا جواب آپ خود سوچ کر اپنے آپ کو مطمئن کریں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ان معلمین میں ایک طبقہ تو ان نئے فارغین کا ہے جو ابھی ابھی عالمیت یا صرف حفظ قرآن مکمل کرکے مکتب میں خدمت انجام دینا چاہتے ہیں، چونکہ ان میں اکثر کی عمر سترہ سے بائیس سال کے درمیان ہوتی ہے، لہٰذا ان کی شادی کو ابھی دو سے پانچ سال ہوتا ہے۔ جب تک ان پر کوئی خاص مالی ذمہ داری گھر والوں کی طرف سے نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ علماء اور حفاظ کم تنخواہوں میں بھی خدمت انجام دینے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کا نکاح ہوجاتا ہے یا نکاح کا وقت قریب آتا ہے تب ان کے لیے مشکل پیش آتی ہے کہ ماہانہ پانچ ہزار آمدنی سے کس طرح گھر کے اخراجات چلیں گے؟ ماہانہ پانچ ہزار آمدنی والے لڑکے کو کون اپنی لڑکی دے گا؟ یہی وجہ ہے کہ بہت سے جید علماء وحفاظ معاشی تنگی کی وجہ سے دو چار سالوں میں ہی مدرسہ چھوڑ کر پاورلوم چلانے، پاورلوم پر بننے والوں کپڑوں کی گھڑی لگانے، دوکانوں پر ڈیوٹی دینے یا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے لگتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مکاتب اور مدارس باصلاحیت، جید اور تجربہ کار اساتذہ سے محروم ہوجاتے ہیں اور اس کا سیدھا اثر طلباء کی تعلیم پر پڑتا ہے، جس کا احساس مکاتب اور مدارس کے فکرمند ذمہ داران بخوبی کرسکتے ہیں۔
ہمیں حیرت اور دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ان مکاتب کے عموماً ذمہ دار کارخانہ دار، تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر اور انجینئر ہوتے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ جن کا ماہانہ اوپر اوپر کا خرچ یعنی صرف دودھ اور گوشت کا خرچ ہی ان معلمین کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ تو کیا کبھی یہ حضرات اپنے آپ کو ان معلمین کی جگہ رکھ کر نہیں سوچتے کہ ایسی جیب خرچ جیسی تنخواہ میں ہمارے گھر کے سارے اخراجات کیسے پورے ہوتے؟
کیا کوئی ان کا درد محسوس کرنے والا نہیں ہے؟ کیا ہم سب بے حس ہوگئے ہیں؟ کیا علماء وحفاظ کرام جنہوں نے سالوں علم دین حاصل کرنے کے لیے مشقتیں جھیلی ہیں، اور پھر علم دین کی نشر واشاعت اور ہمارے بچوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت کے لیے مسند تدریس سنبھال لی تو اس کا بدلہ ہم نے اسے یہ دیا کہ اسے ایک مزدور سے گئے گزرے حالات سے دوچار کردیا۔ جو حضرات معلم ہونے کے ساتھ امام بھی ہوتے ہیں ان کے معاشی حالات پاورلوم مزدور اور حمال (باربرادر) جیسے یا ان سے کچھ بہتر ہوتے ہیں، لیکن جو صرف معلم ہوتے ہیں ان کے معاشی حالات تو بلاشبہ مزدوروں سے بدتر ہوتے ہیں۔
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کم تنخواہ کے سلسلے میں عموماً لوگ اکابر کی تنخواہوں کا حوالہ دیتے ہیں، جب کہ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑی معقول ہوا کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں :
سوانح قاسمی کے مطابق حضرت نانوتوی آٹھ/دس روپے کی اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے، اس وقت اتنے میں ایک بھینس مل جاتی تھی، جبکہ آج کل کے دور میں ایک متوسط بھینس کی قیمت کم و بیش ایک لاکھ روپے روپے ہے۔
"دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال" (مصنف: حضرت سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالی) کے مطابق شیخ الہند مولانا محمود حسن گنگوہی کی تنخواہ پچہتر روپے تھی۔ پچاس میں ان کا گھر چل جاتا تھا، پچیس روپے ہر ماہ دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے (یہ انتہائی درجے کا خلوص تھا) اس کا مطلب ہے کہ انکی تنخواہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھی۔
اشرف السوانح کے مطابق حضرت تھانوی کی تنخواہ کانپور سے علیحدگی کے وقت پچاس روپے تھی۔ اسی کتاب کے مطابق جب حضرت کی ملکیت پانچ سو روپے کی ہوگئی تھی تو والد ماجد کو لکھ گئے تھے کہ اب مجھ پر حج فرض ہوچکا، یعنی دس ماہ کی تنخواہ سے ہی حج فرض ہوجایا کرتے تھے۔
حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھی۔ اور حج کرنے گئے تو اس کا کل خرچ پندرہ سو روپیہ آیا تھا، یعنی صرف چھ مہینے کی تنخواہ سے ہی حج فرض ہوجاتا تھا۔
کیا یہ تنخواہیں کم ہیں؟ بالکل نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں تو مدرسین کی زندگی کی انتہائی درجے کی ضروریات بھی پوری نہیں ہورہی ہیں۔ اور بغور دیکھا جائے تو تنخواہوں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے اصل کمی وہاں ہے، کہ مہنگائی پچاس فیصد بڑھتی ہے تو تنخواہ آٹھ دس فیصد۔
اور بات تنخواہ پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کا دنیا بھر کے اصول وضوابط پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اوقات میں آفس میں موبائل جمع کروا کر کلاس میں جانا ہوتا ہے، تاخیر کی صورت میں منٹوں کے حساب سے تنخواہ کٹتی ہے۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ اور عطیات وصولی کے لیے بک تھما دئیے جاتے ہیں، عیدالاضحیٰ کے موقع پر چرم کے بدلے عطیات جمع کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ مدرسہ میں سالانہ جلسہ اور مسابقہ ہے تو اس کے انتظامات اور انعامات کے لیے چندہ کرنا پڑتا ہے، مسجد مدرسہ کی تعمیر کا مرحلہ ہے تو اس کے تعاون کے لیے کوشش کا حکم دے دیا جاتا ہے، سال بھر میں کبھی بھی مدرسہ کا بجٹ ختم ہونے لگے تو جمعہ اور دیگر نمازوں میں مساجد میں چندہ کرکے بجٹ پورا کرنے کا آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ طلباء کے ساتھ اساتذہ کو بھی اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ بھی رنگین کے بجائے صرف سفید لباس میں مدرسہ آئیں، جبکہ یہ انتہائی مشکل امر ہے کہ ایک شخص دن میں تین تین مرتبہ اپنا رنگین لباس اتار کر سفید لباس پہن کر مدرسہ آئے۔ پھر سفید لباس کو صاف رکھنے اور دھلنے میں رنگین کپڑوں سے زیادہ اخراجات آتے ہیں، جو بلاشبہ ان تنگدست معلمین کے لیے اضافی بوجھ کا سبب بنے گا۔
اگر اصحاب خیر یا طلباء کے سرپرستوں میں سے کوئی ان پر بہت مہربان ہوتا ہے تو ان کی دعوت کردیتا ہے یا ایک جوڑا کپڑا دے دیتا ہے، جبکہ ان دونوں کی انہیں کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ دعوت اور کپڑا ہدیہ دینے کے بجائے اگر انہیں دو پانچ سو روپے ہدیہ کردئیے جائیں تو یہ ان کے لیے زیادہ کارآمد ہوں گے۔
لہٰذا ذمہ داران کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی اس بات پر غور کریں کہ خدانخواستہ حاملین قرآن و حدیث کی ایسی درگت کے ہم سب تو ذمہ دار نہیں ہیں؟ کہیں بروز حشر ہم سے پوچھ نہ ہوجائے؟ غیرقومیں اپنے مذہبی پیشواؤں پر اپنی آمدنی کا دس فیصد تک کا حصہ خرچ کرتی ہیں، اگر ہم ایک فیصد بھی ان پر خرچ کردیں تو ہمارے مذہبی پیشواؤں کے حالات میں خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔ بالخصوص ذمہ داران کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ آپ جس مکتب یا مدرسہ کے ذمہ دار ہیں وہاں پڑھنے والے ہر ہر طالب علم کے پڑھنے کا ثواب بلاشبہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، لیکن صرف ذمہ دار بن جانے اور اساتذہ پر اصول وضوابط لاگو کرنے سے آپ کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے آپ کو مکتب اور مدرسہ کے ظاہری اور باطنی ہر طرح سے استحکام کی کوشش کرنا پڑے گی۔ لہٰذا آپ خود بھی مالی تعاون کریں، اور دوسروں سے تعاون حاصل کرنے کی جدوجہد کریں تب کہیں آپ حقیقی ذمہ دار کہلائیں گے۔ اسی طرح عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بقدر استطاعت مکاتب کا خود بھی مالی تعاون کریں اور دوسروں کو بھی اس کے لیے تیار کریں تاکہ مکاتب کا مالی نظام مستحکم ہو اور قلتِ تنخواہ کا قہر جھیلنے والے مظلوم اساتذہ کی تنخواہوں کا معیار بلند ہو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو درد دل عطا فرمائے، دوسروں کی تکلیفوں کو سن کر اور دیکھ کر اس کا کسی نہ کسی درجہ میں مداوا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
لمحہ فکریہ ہے امت کے لئے۔ الله سمجھ و ہدایت عطا فرمائے میرے لئے بھی دعا کریں الله میرے ذریعے سے دین کی سربلندی کا کام لے آمین یارب العالمين
جواب دیںحذف کریںPadhai k saath saath achhe se business bhi kare , inshaallah kamiyabi mile gi or ye kabhi na Hal hone wala mas-ala Hal ho jae ga inshaallah
جواب دیںحذف کریں