✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اور باعزت ومکرم بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے ساتھ اعزاز واکرام کا معاملہ کیا جاتا ہے، اور اسے غسل و کفن دے کر نماز جنازہ کے بعد احترام کے ساتھ قبر میں رکھ کر اسے دفن کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ شریعت مطہرہ میں رحم مادر سے ہی مرے ہوئے پیدا ہونے والے بچوں کی بھی تدفین طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہی پیدا ہو اور پیدا ہوتے وقت اس میں زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی تو اسے غسل (مسنون غسل دینے کی ضرورت نہیں) دے کر یعنی اسے اچھی طرح گندگی سے صاف کرکے کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھا کھود کر دفن کیا جائے گا۔ اس پر نمازِجنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اور بہتر ہے کہ اس کا نام بھی رکھ دیا جائے، لیکن اگر نام نہیں رکھا گیا تب بھی کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔
لیکن ہمارے شہر میں وقفہ وقفہ سے یہ خبر آتی رہتی ہے کہ ایسے بچے جو ماں کے پیٹ سے ہی مرے ہوئے پیدا ہوتے ہیں انہیں دفن کرنے میں بہت سے لوگ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ قبرستان میں معمولی گھڑا کھود کر ایسے بچوں کو دفن کردیا جاتا ہے اور پھر ہوتا یہ ہے کہ کتے ایسے بچوں کو نکال کر لے جاتے ہیں جو ان معصوموں کے ساتھ انتہائی بے حرمتی کا معاملہ ہے۔ لہٰذا ہماری شہریان سے انتہائی درد مندانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ ایسے بچے جو ماں کے پیٹ سے ہی مرے پیدا ہوئے ہیں، انہیں بھی اچھی طرح گندگی سے صاف کرکے ایک صاف کپڑے میں لپیٹ کر اچھا گہرا گڑھا کھود کر یا پھر اس کے لیے دو چار سو روپے خرچ کریں اور قبرستان میں چھوٹے بچوں کی کھودی ہوئی قبر ہوتی ہے اس میں تختہ لگاکر دفن کریں، تاکہ کتے باوجود کوشش کے بھی انہیں نکال نہ سکیں اور ان کی بے حرمتی نہ ہو، امید ہے کہ اس اہم معاملہ پر سنجیدگی کے ساتھ مکمل توجہ دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر کام صحیح طور پر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، غفلت، سستی، اور بخل سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں