سوال :
لڑکا رحمت ہے یا نعمت یا پھر لڑکی نعمت یا رحمت ہے؟ عام طور پر یہ جو جملہ کہا جاتا ہے۔ اس کی شرعی دلیل اور تفصیل بتا کر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : مولوی شرجیل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ لڑکا نعمت اور لڑکی رحمت ہے۔ اس طرح کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عربی مقولہ ہے جو ان الفاظ "البنات حسنات والبنون نعم" کے ساتھ عربی ادب کی بعض کتابوں میں منقول ہے۔ لہٰذا اس جملہ کو حدیث سمجھنا اور حدیث سمجھ کر اسے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہی اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے : "يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ،أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ۔ (سورۃ الشوری، آیت : ٤٩)
ترجمہ : وہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملا جلا کر لڑکے بھی دیتا اور لڑکیاں بھی، اور جس کو چاہتا ہے، بانجھ بنا دیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے، قدرت کا بھی مالک ہے۔
اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، یا تین بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اچھا معاملہ کرے، تو اس کی بدولت وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ایک بیٹی یا بہن پر بھی یہی فضیلت ہے۔ (ترمذی)
اس حدیث شریف کی بناء پر بعض بزرگانِ دین نے بیٹی کو رحمت سے تعبیر کردیا ہے کہ بیٹی کی اچھی پرورش اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، ورنہ فی نفسہ بیٹا اور بیٹی دونوں اللہ کی نعمت ہیں، اور دونوں کی بہترین دینی تربیت انہیں رحمت بھی بناسکتی ہے۔ نیز دونوں کے بارے میں بروز حشر سوال ہوگا۔
يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ،أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ۔ (سورۃ الشوری، آیت : ٤٩)
قال محمد بن سليمان : البنون نعمٌ، والبنات حسنات، والله عز وجل يحاسب على النعم، ويجازي على الحسنات۔ (بهجة المجالس وأنس المجالس لابن عبد البر : ١/١٦٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شوال المکرم 1444
جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں