✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
(امام خطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام! مسلمانوں کے سب سے بڑے تہوار عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر نماز عیدالفطر ادا کرنے کے لیے شہر عزیز مالیگاؤں کا ایک بہت بڑا طبقہ لشکر والی عیدگاہ پہنچتا ہے۔ چونکہ یہ عیدگاہ غیرمسلموں کے علاقے میں ہے۔ لہٰذا یہاں جانے اور واپس آنے میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جنہیں زیر نظر مضمون میں ذکر کیا جارہا ہے۔
محترم قارئین! سب سے پہلی اور انتہائی اہم گزارش یہ ہے کہ نماز عیدالفطر کا جو وقت متعین کیا گیا ہے ہم اس وقت سے پہلے عیدگاہ پہنچ جائیں، بلاعذر شرعی اس میں تاخیر کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ تاخیر سے آنے والوں کی وجہ سے اگر نماز میں تاخیر کی جاتی ہے تو پہلے آنے والوں کو غیرمعمولی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا خوب خیال رکھیں۔
عیدالفطر کی سنتوں میں ایک اہم سنت یہ ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں چھوارے یا کھجور تناول کرلی جائے، اگر یہ میسر نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز کھالینا کافی ہے، اس موقع پر صرف کھجور یا چھوہارہ ہی کھانا سنت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہم نماز سے پہلے بطور ناشتہ سوئیاں یا پھینی وغیرہ کچھ بھی کھا کر عیدگاہ پہنچیں، بالکل خالی پیٹ عیدگاہ نہ جائیں کہ یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن نماز عیدالفطر کے بعد ہمارے بہت سے نوجوان ایک عجیب سی حرکت یہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اُسی غیروں کے علاقے میں جہاں بھی کوئی کھانے پینے کوئی چیز فروخت ہورہی ہو وہاں اس طرح ٹوٹ پڑتے جیسے وہ چیز مفت مل رہی ہو یا پھر یہ بے چارے کئی دنوں کے بھوکے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ برادران وطن پر اس کا بہت غلط اثر پڑتا ہوگا اور وہ یہ سمجھتے ہوں گے بے چاروں نے ایک مہینہ بھوکے رہ کر گذارا ہے۔ اب جاکر انہیں جیسے ہی کھانے کی اجازت ملی ہے تو وہ کھانے پینے پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جب ہم گھر سے ناشتہ کرکے نکلے ہیں تو پھر دو تین گھنٹے ہم بغیر کھائے پیئے کیوں نہیں رہ سکتے؟ اور حال یہ ہے کہ ہماری ایک مہینہ دن بھر روزہ رکھنے کی مشق بھی ہے تو پھر چاند دکھنے کے دوسرے ہی دن صبح میں ہی ہماری بھوک قابو سے باہر کیوں ہوجاتی ہے؟ جبکہ نماز عیدالفطر کے بعد ہمیں آدھے گھنٹے کے بعد گھر پہنچ کر کھانا ہی کھانا ہے، جہاں ہمارے گھر کی خواتین بڑی محنت سے عمدہ کھانے پکا کر ہمارے انتظار میں ہوتی ہیں، اور ہم اوٹ پٹانگ، غیرمعیاری اور مہنگی چیزوں سے اپنی بھوک مار کر گھر پہنچتے ہیں۔ لہٰذا اب اس مرتبہ سے ہم پختہ ارادہ کرلیں کہ گھر سے ٹھیک ٹھاک ناشتہ کرکے نکلیں گے اور گھر آکر ہی کھانا کھائیں گے، تاکہ ہمارے وقار، سنجیدگی اور تعلیمات پر کوئی سوالیہ نشان نہ لگے۔
اسی طرح ایک طبقہ ان نوجوانوں کا ہوتا ہے جو فلموں کے پوسٹرس دیکھتا ہوا اور یہ پلاننگ کرتا ہوا لشکر والی عیدگاہ سے واپس ہوتا ہے کہ کون سے دن؟ اور کون سے شو میں فلم دیکھنے آنا ہے؟ جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ ایسا بابرکت اور مقدس موقع ہوتا ہے کہ فرشتے رمضان المبارک میں کی گئی عبادات کے بدلے بندوں کو دئیے گئے اجر اور مغفرت کو دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں اور کھِل جاتے ہیں، لہٰذا اس مبارک موقع پر بالخصوص گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہوئے گھروں کی طرف لوٹنا چاہیے۔
لشکر والی عیدگاہ جانے والوں میں ایک طبقہ وہ بھی ہوتا ہے (جو اگرچہ بہت معمولی ہوتا) جو ایسے علاقوں سے عیدگاہ آتا جاتا ہے جہاں غیرمسلم عورتیں دکھائی دیں اور ان لوگوں کو کوئی غیر اخلاقی حرکت کرنے یا کوئی غیرشرعی جملہ کہنے کا موقع ملے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو بھی اس سے بچنا چاہیے کہ یہ حرکت ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بدنام کرنے والی ہے۔ اور ایسے حالات میں اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو رمضان المبارک میں صدقہ فطر ادا نہیں کر پاتے وہ عیدگاہ جاتے ہوئے سڑکوں پر بھیک مانگنے والے غیرمسلموں کو صدقہ فطر ادا کرتے ہوئے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں غریب مسلمانوں کی کمی نہیں ہے، اور اصل صدقہ فطر کے حقدار غریب مسلمان ہیں، لہٰذا کوشش تو یہی ہو کہ نماز سے پہلے پہلے غریب مسلمانوں کو صدقہ فطر ادا کردیا جائے، لیکن اگر کوئی نماز سے پہلے مستحق مسلمانوں کو صدقہ فطر ادا نہیں کرسکا تو وہ نماز کے بعد بھی مستحق مسلمانوں کو ہی صدقہ فطر ادا کرے، غیرمسلموں کو صدقہ فطر نہ دے۔
امید ہے کہ معزز شہریان مذکورہ بالا تمام گذارشات پر توجہ فرمائیں گے اور اس پر پوری طرح عمل کرکے اپنے بہترین مسلمان ہونے کا ثبوت دیں گے جس پر وہ بلاشبہ اجر وثواب کے مستحق بھی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سلیم الفطرت مسلمان بنائے اور ہمیں اخلاق حسنہ سے مالا مال فرمائے، ناجائز افعال، بد اخلاقی اور بد تہذیبی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
بہت ہی عمدہ تحریر ہے مفتی صاحب ❤️
جواب دیںحذف کریںبہترین رہنمائی کی آپ نے۔
جواب دیںحذف کریںان شاءاللہ یہ ساری باتیں قابل عمل ہیں۔
عمل کیا جائے پھر صرف بولنے یا لکھنے کام نا چلائے
حذف کریںماشاءاللہ مفتی صاحب بر وقت رہنمائی فرمائی آپ نے اللہ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب ایک مسلا تھا اگر چھوٹا بچا بیت الخلاء کردے تو اوسکو دھوانے سے وضو ٹوٹ جائے گا
جواب دیںحذف کریں🦃🦃🦃🦃🦃
حذف کریںاس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں۔
حذف کریںباتیں تو قابل عمل ہے لیکن لوگ ان پر عمل نہیں کرتے ہیں آپ کا کام صرف لکھنا ہے اور لوگوں کا کام اسکو پڑھ کر اس پر تبصرے کرنا ہے اور اس سے آپ اپنا بلاگ چلارہے اور لوگوں کاتبصرہ حاصل کررہے ہیں
جواب دیںحذف کریںالحمدللہ آپ نے اس بات سے اتفاق تو کیا کہ یہ باتیں قابل عمل ہیں، اب یہ دعا بھی فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔ بقیہ باتیں ہم اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے ہیں، وہ سب کے دلوں کے حال جاننے والا ہے۔ اور وہی انصاف بھی کرنے والا ہے۔ 😔
حذف کریںبیشک ۔۔۔۔آپ اپنا کام کرتے رہیے مفتی صاحب۔۔۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والا ہے۔
حذف کریںماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالی آپ کے علم میں خوب برکت عطا فرمائے ۔
ماشااللہ بہت خوب مفتی صاحب ۔۔۔آپنے آج کے دور کے حساب سے ایک دم صحیح رہبری فرمائی ہے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ 🌹🌹🌹
جواب دیںحذف کریں