سوال :
بواسیر کے مریض کو ایک ٹیوب کو پاخانہ کی جگہ لگانا پڑتا ہے جو کہ ضروری ہے۔ تو کیا روزے کی حالت میں وہ اس ٹیوب کو پاخانہ کرنے کے بعد یہ پاخانہ کرنے سے پہلے پاخانہ کی جگہ لگا سکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ مختار، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بواسیر کا مریض مخرج میں دوا اور مرہم لگائے تو اس سے روزہ پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے جو درج ذیل ہے :
پیچھے کے راستہ سے داخل کی گئی چیز اگر موضع حقنہ سے آگے بڑھ جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور خارج دبر سے موضع حقنہ کا فاصلہ تقریباً پانچ انچ ہے (جیساکہ اطباء کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے) لہٰذا اگر کوئی خشک یا سیال دوا پیچھے کے راستہ سے اندر ڈالی جائے یا بواسیر کے اندرونی مسوں پر دوا لگائی جائے تو ا س سے روزہ یقیناً ٹوٹ جائے گا؛ اس لئے کہ اس دوا کا یا مرہم کا موضع حقنہ تک پہنچنا تقریباً یقینی ہے اور اگر پیچھے کے راستہ سے کوئی آلہ اندر داخل کیا جائے اور وہ تر ہو یا اس پر مرہم وغیرہ لگا ہوا ہو، اگر وہ تین انچ سے تجاوز کرجائے گا تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اور اگر اس سے نیچے ہی نیچے ہو اور اس میں لگی ہوئی تری کے موضع حقنہ تک پہنچنے کا غالب گمان نہ ہو تو روزہ فاسد نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر یہ آلہ بالکل خشک کرکے اندر ڈالا جائے اس میں کوئی تری مرہم وغیرہ نہ ہو اور اس کا ایک سرا باہر رہے، تو اس سے مطلقاً روزہ نہ ٹوٹے گا، خواہ کتنا ہی اندر چلا جائے۔ (کتاب النوازل : ٦/٢٢٤)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر بواسیر کے مسے دو تین انگل کے اندر ہوں اوردواء لگانا ناگزیر ہو تو ان پر کریم لگانے سے روزہ فاسد نہ ہوگا۔ تری کا اندر پہنچنا جب مفسد صوم ہے کہ تری قدر محقنہ پانچ چھ انگل پر پہنچ جائے اس سے کم مقدار میں تری اندر پہنچنا مفسد نہیں اور بواسیری مسے اتنے اندر نہیں ہوتے بلکہ ایک دو انگل کے اندر ہوتے ہیں؛ باقی ایسے مریض کو حتی الامکان احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ (رقم الفتوی : 47654)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر پاخانہ کی جگہ اندر دو تین انگل تک اگر مرہم اور کریم (ٹیوب) لگایا جائے جیسا کہ عموماً لگایا جاتا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
ولو بالغ في الاستنجاء حتی بلغ موضع الحقنۃ فسد۔ (شامي ۳؍۳۶۹ زکریا)
ولو أدخل إصبعہ في إستہٖ والمرأۃ في فرجہا لا یفسد، إلا إذا کانت مبتلۃ بالماء أو الدہن فحینئذٍ یفسد لوصول الماء أو الدہن۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۰۴)
وہو أن ما دخل في الجوف إن غاب فیہ فسد وہو المراد بالاستقرار، وإن لم یغب؛ بل بقي طرف منہ في الخارج أو کان متصلاً بشيء في الخارج لا یفسد لعدم استقرارہٖ، ولو مبتلاً فسد لبقاء شيء من البلۃ في الداخل۔ (شامي ۳؍۳۶۹ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رمضان المبارک 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں