سوال :
کیا شب برأت کی فجر میں لمبی دعا مانگنا ضروری ہے؟ اکثر مسجدوں میں لمبی دعا مانگنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور عوام بھی اسکو ضروری سمجھنے لگی ہے جب کہ اکثر لوگ دعا میں اونگھتے ہیں، دعا میں وہ بشاشت نہیں رہتی جو رہنی چاہیے۔ اس موضوع پر کچھ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی معین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : افضل دعا وہ ہے جو سِری اور مختصر وجامع ہو جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان دعاؤں کو پسند فرماتے تھے جو جامع ہیں اور ان دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے جو جامع نہیں ہیں۔
"جامع دعا" اس کو کہتے ہیں جس میں الفاظ تو کم ہوں مگر وہ دنیاوی اور اخروی امور کے بہت زیادہ معنی و مقصد پر حاوی ہو جیسے یہ دعائیں ہیں۔ دعا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار)۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ دعا (اللہم انی اسألک العفو والعافیۃ فی الدین والدنیا والآخرۃ)۔ اے اللہ ! میں تجھ سے دین میں دنیا میں اور آخرت میں عفو عافیت مانگتا ہوں۔ لہٰذا جہاں اجتماعی دعا ہو وہاں مختصر اور جامع دعا ہی کرنی چاہیے۔
شب برأت کا موقع بلاشبہ مغفرت اور دعاؤں کی قبولیت کا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر کام امام کے ذریعہ ہو، یعنی امام ہی نماز کے بعد لمبی دعا کرائے تو دعا ہوگی ورنہ کسی کو انفرادی دعا کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوگی۔ اور عوام کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ وہ طویل دعائیں صرف اجتماعی دعا میں ہی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ انفرادی اور لمبی دعائیں کرتا ہوا اب خال خال افراد کو ہی دیکھیں گے۔ نیز آج کل کی طول طویل اجتماعی دعاؤں میں اس بات کا قوی اندیشہ ہوتا ہے کہ حاضرین میں بشاشت باقی نہیں رہتی جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے کہ شب برأت کی فجر میں طویل اجتماعی دعا کے درمیان لوگ اونگھنے لگتے ہیں کیونکہ شب برأت میں عموماً لوگ دیر رات تک جاگتے ہیں، بلکہ بہت سے لوگ ساری رات سوتے ہی نہیں ہیں۔ اور دعا کے وقت غفلت اور بے زاری کی کیفیت طاری ہوجائے تو یہ دعا بجائے عبادت کے وبال بن جائے گی۔
لہٰذا پابندی سے ہر شب برأت کے موقع پر فجر یا عشاء کی نماز میں طویل دعا کرنے معمول نہیں بنانا چاہیے تاکہ عوام اسے شب برأت کا حصہ اور ضروری نہ سمجھ لے اور اگر خدانخواستہ کوئی اسے ضروری سمجھ رہا ہے تو وہ بلاشبہ دین میں زیادتی کرنے والا، بدعتی اور گمراہ ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ الْجَوَامِعَ مِنْ الدُّعَائِ وَيَدَعُ مَا سِوَی ذَلِکَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٤٨٢)
والسنۃ أن یخفی صوتہ بالدعاء۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۲۳۹، شامي ۳؍۱۳۸ زکریا)
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)
عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شعبان المعظم 1444
یہ ایک طرح کی خود کی مارکیٹنگ کا موقع ہوتا ہے جو امام کو میسر آتا ہے اور اس میں امام صاحبان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کی بجائے اپنے کسی فیوریٹ مشہور شخص کی نقالی کرتے ہیں حتی کہ لہجہ بھی اسی کی طرح اور ایسا سب صرف مالیگاوں میں ہی ہوتا ہے ۔ عوام میں فیورٹزم کا بھوت صرف اور صرف مالیگاوں میں ہی پایا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںورنہ تنہایئ کی دعاوں کی لذت کا کس کو انکار ہے
ماشاءاللہ مفتی صاحب اس وقت عمرہ کے مبارک سفر سے بہرہ ور ہیں مفتی صاحب سے درخواست اور گذارش ہے کہ شب برأت کے موقع پر حرمین شریفین کا کیا منظرنامہ مختصراً ارقام فرماٸیں تاکہ عوام الناس کو اندازہ ہو کے اس موقع پر مہبط وحی حرمین مقدس کا کیسا ماحول ہے۔ جزاك اللهُ
حذف کریں