سوال :
محترم مفتی صاحب سجدے میں دونوں پیروں کی ایڑیوں کو ملانا اولیٰ ہے؟ یا قیام میں جیسے تھے ویسے رکھنا اولیٰ ہے؟ مسنون کیا ہے؟ اور ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے سوشل میڈیا پر جس میں ملانے کے بارے میں حدیث ہے ایسا بتایا جارہا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ابوسفیان، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سجدہ میں دونوں پاؤں کی ایڑیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا یا دونوں ایڑیوں کو ملانا دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
"فوجدتُه ساجدًا راصًّا بین عقبیه."
میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے میں پایا، آپ ﷺ کی دونوں ایڑیاں ملی ہوئی تھیں۔ (صحیح ابن حبان، باب صفۃ الصلوۃ، رقم الحدیث:1917)
دوسری حدیث حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں ہے :
"کان صلی اللہ علیه و سلّم إذا رکع بسط ظھرہ و إذا سجد وجّه أصابعه قِبَل القبلة فتفاجّ یعني وسّع بین رجلیه."
اس حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں فاصلہ رکھتے تھے۔
تاہم فقہاء کی تصریحات کے مطابق پیروں کے درمیان فاصلہ رکھنے کا قول زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے اور یہی عمل اَفضل ہے۔ اور اس کی تائید حدیثِ براء کے علاوہ اس سے بھی ہوتی ہے کہ مردوں کو بحالتِ سجدہ تجافي یعنی اَعضاء کے کشادہ رکھنے اور ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور فقہاء اس کو مسنون قرار دیتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں "فوجدتُه ساجدًا راصًّا بین عقبیه" کے الفاظ ایڑیوں کے ملانے پر صراحتاً دلالت کرتے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ عائشہ میں ایک جزوی واقعے کا ذکر ہے، اور حدیثِ براء میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول کا ذکر ہے، یا ایڑیوں کو ملانے کا مطلب محاذات اور برابر رکھنا ہے، الصاقِ حقیقی (دونوں کا ملانا) مراد نہیں ہے۔ یا الفاظ کی یہ زیادتی شاذ ہے، جو قابلِ استدلال نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ حدیث مختلف طُرق کے ساتھ مختلف کتب میں مذکور ہے؛ لیکن یہ الفاظ "فوجدتُه ساجدًا راصًّا بین عقبیه" صرف یحییٰ بن ایوب نقل کرتے ہیں جو کہ صحیح ابن حبان،شرح معانی الآثار،البیہقی میں منقول ہے، اور دوسرے ثقات (صحیح مسلم، ابوداود، مسنداحمد، نسائی میں موجود راوی) اس کی مخالفت کرتے ہیں؛ لہٰذا یہ زیادتی شاذ ہے۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :
بعض فقہاء کے کلام سے اور توارث وتعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریج ہی سنت ہونا چاہیے، کما في السعایة: و رأیت کلامًا للشیخ... الخ ان حالات کو دیکھ کر فقہاءِ متأخرین کی عبارت یا موٴول ہوگی یا مرجوح، طوالع الانوار شرح درمختار میں شیخ محمد عابد نے اس کی تاویل کرتے ہوئے الصاقِ کعبین سے محاذاتِ کعبین مراد لی ہے اور اس میں علامہ رحمتی کے قول سے استیناس بھی کرلیا ہے․․․ اور جن فقہاء نے اس کی تاویل کا ارادہ نہیں کیا ہے، وہ اس کو قولِ مرجوح اور زاہدی کے اَوہام میں درج کرتے ہیں ...“ الخ۔ (فتاویٰ دارالعلوم : ٢/١٤٤)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک واقعہ مروی ہے جس میں ہے : فوجدتُہ ساجدًا راصًا بین عقبیہ۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے میں پایا آپ کی دونوں ایڑیاں ملی ہوئی تھیں، دوسری حدیث حضرت براء سے مروی ہے، جس میں ہے کان صلی اللہ علیہ وسلم إذا رکع بسط ظھرہ وإذا سجد وجّہ أصابعہ قِبَل القبلة فتفاجّ یعني وسّع بین رجلیہ (وکلا الحدیثین صحیح أو حسن: إعلاء السنن) اس حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں فاصلہ رکھتے تھے۔ شامی میں ٹخنوں کے ملانے کا جو قول منقول ہے، خود علامہ شامی نے اس کی تضعیف کی ہے۔ نیز صاحب سعایہ نے اس مسئلے میں سیر حاصل بحث کی ہے اور الصاقِ کعبین کے سنت ہونے کا انکار کیا ہے والقول الفیصل، أن یقال إن کان المراد بإلصاق الکعبین أن یلزق المصلي أحد کعبیہ بالآخر․․․ فلیس ھو من السنن علی الأصحّ اس قول کی تائید حدیث براء کے علاوہ اس سے بھی ہوتی ہے کہ مردوں کو بحالت سجدہ تجافی یعنی اعضاء کے اظہار اور ایک دوسرے سے علاحدہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور فقہاء اس کو مسنون قرار دیتے ہیں۔ پیروں کے درمیان فاصلہ رکھنے کا قول اس سنت کے عین مطابق ہے۔ نیز حدیث عائشہ میں ایک جزوی واقعہ کا ذکر ہے اور حدیث براء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول کا ذکر ہے، بنابریں پیروں کے درمیان فاصلہ رکھنے کا قول زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے۔ (رقم الفتوی : 5680)
امداد الفتاوی میں ہے :
حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے بھی ایک سوال کے جواب میں سعایہ کی تحقیق کو راجح قرار دیا ہے، سائل نے سوال میں زاہدی کے متعلق النافع الکبیراور الفوائد البهیة کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ”وہ فقہ میں عظیم المرتبت امام تھے؛ لیکن نقلِ روایات میں متساہل تھے، نیز وہ عقیدةً معتزلی تھے اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے "تنقیح الفتاویٰ الحامدیة" میں لکھا ہے کہ زاہدی کی ”الحاوی“ روایاتِ ضعیفہ نقل کرنے میں مشہور ہے، جس کی وجہ سے ابنِ وہبان وغیرہ فرماتے ہیں کہ زاہدی کا جو قول دیگر فقہاء کے خلاف ہو اس کا اعتبار نہیں ...“ الخ۔ (امداد الفتاویٰ : ١/٥٣٥ : مکتبہ نعمانیہ)
امدادالاحکام میں ہے :
امام طحاوی رحمہ اللہ نے رکوع وسجود کے درمیان فاصلے کی سنیت کی تصریح فرمائی ہے۔ (امداد الاحکام۲/۹۱-۹۲زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی رشیدیہ میں ہے :
الصاقِ کعبین رکوع و سجود میں جیسا درمختار میں ہے، کسی کتاب حدیث سے اس کا نشان معلوم نہیں ہوتا اور چوں کہ اس کی سنیت حیزِ خفا میں ہے؛ لہٰذا متروک ہے۔ بعض پہلے علماء کو بھی اس میں تکرار ہوا ہے، بخاری کا الصاقِ کعاب باہم مقتدیوں کا مراد ہے اور اس سے محاذات مقصود ہے اور اتصال و تراص صفوف، اور یہاں وہ بظاہر مراد نہیں۔ (ملفوظات، ص:351،ط:ادارہ صدائے دیوبند)
خلاصہ یہ کہ سجدہ کی حالت میں دونوں ایڑیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا سنت ہے۔ سوال نامہ میں جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی وضاحت اوپر کردی گئی ہے کہ اس روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل عمل نہیں تھا یا پھر ایڑیاں ملانے والی بات راوی کا اپنا اضافہ ہے، لہٰذا سجدہ کی حالت میں ایڑیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا چاہیے۔
و منہا الصاق الکعبین وذکرہ جمع من المأخرین وجمہور الفقہاء لم یذکروہ ولا أثر لہ فی الکتب المعتبرة کالہدایة وشروحہا: النہایة والعنایة والبنایة والکفایة وفتح القدیر وغیرہا والکنز وشرحہ للعینی وشرح النقایة لا لیاس زادہ والبرجندی والشمنی وفتاوی قاضی خان والبزازیة وغیرہا․․․․ وقال خیر المتاخرین شیخ مشائخنا محمد عابد السندی المدنی فی طوالع الأنوار شرح الدرالمختار قولہ والصاق کعبیہ أی حالة الرکوع قال الشیخ الرحمتی مع بقاء تفریج ما بین القدمین قلت لعلہ أراد من الالصاق المحاذاة وذلک یحاذی کل من کعبیہ الاٰخر فلا یتقدم أحدہما علی الاٰخر․․․ قلت لقد دارت ہذہ المسألة فی سنة اربع وثمانین بعد الألف المئتین بین علماء عصرنا فأجاب أکثرہم بأن الصاق الکعبین فی الرکوع والسجود لیس بمسنون ولا أثر لہ فی الکتب المعتبرة والقول الفیصل أن یقال ان کان المراد بالصاق الکعبین أن یلزق المصلی أحد کعبیہ بالآخر ولا یفرج بینہما کما ہو ظاہر عبارة الدرالمختار والنہر وغیرہما وسبق الیہ فہم المفتی ابی السعود أیضا فلیس ہو من السنن علی الأصح کیف وقد ذکر المحققون من الفقہاء أن الاولٰی للمصلی أن یجعل بین قدمیہ نحو أربعة أصابع ولم یذکروا أنہ یلزقہما فی حالة الرکوع والسجود وقال العینی فی البنایة نقلاً عن الواقعات ینبغی أن یکون بین قدمی المصلی قدر أربع أصابع الید لأنہ أقرب الی الخشوع والمراد من قولہ علیہ الصلوة والسلام الصقوا الکعاب بالکعاب اجماعہما انتہیٰ․ فہٰذا صریح فی أن المسنون ہو التفریج مطلقاً والا لقیدہ بحالة القیام وأن المراد بالصاق الکعب بالکعب الوارد فی الخبر غیر الزاقہما ویوٴیدہ ما أخرجہ أبوداود وصححہ ابن خزیمة وذکرہ البخاری تعلیقا عن النعمان بن بشیر قال رأیت الرجل منا یلزق کعبہ بکعب صاحبہ وفی رد المحتار نقلا عن فتاویٰ سمرقند ینبغی أن یکون بین القدمین مقدار أربع أصابع وما روی أنہم الصقو الکعاب بالکعاب أرید بہ الجماعة انتہی وان کان المراد بہ محاذاة احدی الکعبین بالاٰخر کما أبدع العلامة السندی فہو أمر حق ولا بعد فی حمل الالصاق علی المحاذاة فانہ جاء استعمالہ فی القرب ویوٴید عدم سنیة الزاق الکعبین والمعنی الأول أی ترک التفریج بینہما أنہ یلزم فیہ تحریک احدی الکعبین الی الأخری وتحریک عضو فی الصلوة من غیر ضرورة لیس بجائز عندہم۔ (السعایہ فی کشف ما فی شرح الوقایہ : ٢ /١٨٠ - ١٨١)
مستفاد : فتوی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، رقم الفتوی : 144111200264)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 شعبان المعظم 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں