سوال :
مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ ایک عالم سے یہ مسئلہ سنا ہے، جس تہہ بند لنگی یا پائجامہ میں رات گزاری ہو اس تہہ بند، پائجامہ میں فجر کی نماز ادا کی جائے وہ نماز مکروہ ہوتی ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
(المستفتی : محمد ابوداؤد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہ وفتاوی میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں لکھا ہے کہ جس تہبند اور پاجامہ میں رات گزاری ہو اسے پہن کر فجر کی نماز ادا کی جائے تو وہ نماز مکروہ ہوتی ہے۔ البتہ یہ بات ہوسکتی ہے کہ اگر کسی نے رات میں سوتے وقت تہبند یا پاجامہ پہنا ہو اور اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بوس وکنار کیا ہو اور آلہ تناسل میں تناؤ آنے کی وجہ سے اس کی مذی نکل کر اس کے تہبند یا پاجامہ میں لگ گئی ہو اور اس کو اس کا علم بھی ہو لیکن اس کے باوجود اگر اس نے اسے نہیں دھویا اور اسی طرح نماز ادا کرلی تو نماز مکروہ ہوگی اور اگر مذی ایک سکہ کی مقدار سے زیادہ ہوتو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی، لہٰذا اس نماز کا دوہرانا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر اسے کبھی بھی اور کسی بھی طرح اس بات کا علم ہی نہیں ہوا کہ اس کے کپڑوں میں مذی لگی ہے تو پھر اس کی نماز بلاکراہت درست ہوگی۔
قَالَ (وَفِي الْمَنِيِّ الْغُسْلُ) لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إنَّمَا الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ» يَعْنِي الِاغْتِسَالَ مِنْ الْمَنِيِّ.....قَالَ (، وَفِي الْمَذْي الْوُضُوءُ) لِحَدِيثِ «عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ كُنْتُ فَحْلًا مَذَّاءً فَاسْتَحْيَيْت أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ تَحْتِي فَأَمَرْت الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ حَتَّى سَأَلَهُ فَقَالَ كُلُّ فَحْلٍ يُمْذِي، وَفِيهِ الْوُضُوءُ» وَكَذَلِكَ الْوَدْيُ فَإِنَّهُ الْغَلِيظُ مِنْ الْبَوْلِ فَهُوَ كَالرَّقِيقِ مِنْهُ، ثُمَّ فَسَّرَ هَذِهِ الْمِيَاهَ فَقَالَ (الْمَنِيُّ خَائِرٌ أَبْيَضُ يَنْكَسِرُ مِنْهُ الذَّكَرُ)، وَذَكَرَ الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فِي كِتَابِهِ أَنَّ لَهُ رَائِحَةَ الطَّلْعِ (، وَالْمَذْيُ رَقِيقٌ يَضْرِبُ إلَى الْبَيَاضِ يَخْرُجُ عِنْدَ مُلَاعَبَةِ الرَّجُلِ أَهْلَهُ، وَالْوَدْيُ رَقِيقٌ يَخْرُجُ مِنْهُ بَعْدَ الْبَوْلِ)، وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الْمِيَاهِ مَرْوِيٌّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا بِهَذِهِ الصِّفَةِ۔ (المبسوط : ۱؍۶۷، کتاب الصلاۃ، باب الوضوء و الغسل)
عن سہل بن حنیف رضي اللّٰہ عنہ قال: کنت القی من المذي شدۃ وعناء فکنت أکثر منہ الغسل فذکرت ذٰلک لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسألتہ عنہ، فقال: إنما یجزئک من ذٰلک الوضوء، قلت: یا رسول اللّٰہ! کیف بما یصیب ثوبي منہ قال یکفیک أن تاخذ کفا من ماء فتنضح بہ ثوبک حیث تری أنہ أصاب منہ۔ (سنن الترمذي : ١/۳۱)
وعفا (الشارع) عن قدر درہم۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۴۵)
الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1444
السلام وعلیکم ۔ایک سوال ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں رکوع ایک مرتبہ لیکن سجدہ دو مرتبہ کیوں ہوتا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ میرا سوال قابل غور نہیں ہے لیکن ایک شخص مجھے بار بار پوچھ رہا ہے ۔برائے کرم جواب عنایت فرمائیں ۔
جواب دیںحذف کریں