سوال :
مفتی صاحب! 8 مہینے پہلے زید کی شادی طے ہوئی، پچھلے ہفتے بات پکی کےموقع پر لڑکی والے اچانک مہر فاطمی (ایک لاکھ) کی مانگ کرنے لگے۔ لڑکے والوں نے دیکھ دیکھاؤ کے وقت ہی ایسا بول دیا تھا کہ ہم لوگ جہیز وغیرہ نہیں لیتے، بات پکی کے وقت تھوڑی تکرار بھی ہوئی اور آخر میں رشتہ ٹوٹ گیا۔ بعد میں لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے بات آنے لگی کہ ہم لوگوں نے لڑکےکو جو کچھ بھی تحفے اور پیسے دیئے تھے یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں (سیب، سنترہ، عیدی کے کپڑے کی رقم وغیرہ) سب واپس کیا جائے۔ لڑکے والوں نے ایک ایک چیز واپس کیں اور اگر وہ چیزیں استعمال ہو چکی ہیں تو لڑکی والوں نے اسکی رقم کی مانگ کی اور انہیں لڑکے والوں نے اسکی رقم بھی دے دی۔ بعد میں لڑکی والوں کی طرف سے ایسا بھی بولا گیا کہ لڑکے والے ہمارے لیول کے نہیں ہیں اور دین دار بھی نہیں ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح سے مہر فاطمی طلب کرنا کیا درست ہے؟ اور یہ جو دین داری کی بات ہے، تو تحفے، کھانے پینے اور پیسے واپس طلب کرنا یہ کونسی دینداری ہے؟ آپ سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ریحان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہر باہمی رضامندی سے طے ہوتی ہے، مہر کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ لڑکی والے جتنا کہہ دیں اور وہ مہر متعین ہوجائے، بلکہ یہ لڑکے کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر لڑکی والوں کی طرف سے بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کا مطالبہ آئے تو لڑکے کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ صاف کہہ دے کہ مجھے یہ مقدار منظور نہیں ہے، بلکہ فلاں فلاں مقدار مقرر کی جائے کہ میں اسی کی استطاعت رکھتا ہوں، اس کے بعد باہمی رضامندی سے جس مقدار پر اتفاق ہوجائے اسی مقدار کا ذکر ایجاب وقبول کے وقت کیا جائے گا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ مہر فاطمی مقرر کرنا اگرچہ مستحب اور بہتر ہے، لیکن اگر لڑکے والوں کی اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لڑکی والوں کا مہر فاطمی پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ اور یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ مہر فاطمی نہ دینے پر رشتہ ہی ختم کردیا جائے، ایسا کرنا دو وجوہات کی بناء پر ہوسکتا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ مہر فاطمی کو ضروری سمجھا جارہا ہے جبکہ یہ صرف مستحب ہے، اور کسی مستحب حکم کو ضروری سمجھ لینا درست نہیں۔ یا پھر لالچ کی وجہ سے ایسا کیا جارہا ہے۔ ہر دو صورت میں ایسا کرنا کوئی دینداری نہیں بلکہ ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔
رشتہ طے ہوجانے کے بعد اگر ختم ہوجائے تو ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اس دوران دئیے گئے تحائف جو استعمال نہیں ہوئے ہیں ان کو خود ہی واپس کردیتے ہیں، اور اگر کھانے پینے والی چیزیں ہوں یا جو چیزیں استعمال ہوچکی ہیں اس کا کوئی مطالبہ نہیں کرتا، اور چونکہ یہ سب چیزیں ہدیہ اور تحفہ ہوتی ہیں، لہٰذا ان کی واپسی کا مطالبہ کرنا جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں عیدی اور پھلوں کی قیمت واپس کرنے کی بات کہی گئی ہے تو یہ بڑے ہلکے پن کی بات ہے۔ حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ کسی کو ہدیہ دے کر واپس مانگ لینے والے کی مثال اس کتے کی سی ہے جو خوب سیراب ہو کر کھائے اور جب پیٹ بھر جائے تو اسے قے کردے اور اس قے کو چاٹ کر دوبارہ کھانے لگے۔ لہٰذا لڑکی والوں کو مذکورہ چیزوں کی قیمت نہیں مانگنا چاہیے۔
عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَالَ : أَلَا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ ؛ فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً۔ (سنن ابوداؤد، رقم : ٢١٠٦)
أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَعُودُ فِي هِبَتِهِ كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ فَأَكَلَهُ۔ (مسند احمد، رقم : ١٠٣٨١)
وفي الفتاویٰ العتابیۃ : الرجوع في الہبۃ مکروہ في الأحوال کلہا، ویصح۔ (الفتاویٰ التاتارخایۃ، کتاب الہبۃ / الرجوع في الہبۃ ۱۴؍۴۴۸ رقم: ۲۱۶۶۹ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رجب المرجب 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں