سوال :
محترم مفتی صاحب! ترکی شام وغیرہ کے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے ریلیف جمع کی جارہی ہے تو ان کی مدد کون سی مد سے کی جائے؟ کیا اس میں زکوٰۃ اور سودی رقم دے سکتے ہیں؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صدقہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک صدقۂ واجبہ، دوسرے صدقۂ نافلہ۔
نذر، منت، زکوٰۃ، صدقۂ فطر، فوت شدہ نماز، روزوں کے فدیہ اور سودی رقم وغیرہ، صدقۂ واجبہ ہیں، اس کا مصرف مستحق اور مسکین مسلمان ہیں، اور اس میں تملیک یعنی مستحق کو اس مال کا مالک بنانا شرط ہے۔ لہٰذا یہ رقوم ان مسلمان متاثرین کو دی جاسکتی ہے جو صاحبِ نصاب باقی نہیں رہے یعنی ان کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، سامان خورد ونوش، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ موجودہ اوزان کے مطابق 62 تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے بقدر مال نہ ہو۔ اور بلاشبہ زلزلہ متاثرین کے پاس تو عموماً کچھ بھی باقی نہیں رہتا، ان کا رہائشی مکان تک تباہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے جمع کی جارہی ریلیف میں صدقہ واجبہ یعنی زکوٰۃ اور سودی رقم دی جاسکتی ہے۔
مذکورہ بالا صدقۂ واجبہ کے علاوہ آدمی اپنی کمائی سے جو مال نکالے اسے صدقۂ نافلہ، چندہ، ہبہ، عطیہ اور امداد سب کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مصرف مساجد، مدارس، خود صدقہ دینے والا، اس کے گھر والے، مالدار اور غریب، مسلم غير مسلم سب ہیں، اس میں تملیک شرط نہیں۔ لہٰذا یہ رقوم بدرجہ اولی زلزلہ متاثرین کو دی جاسکتی ہے۔
اعلم أن الصدقۃ تستحب فاضل عن کفایتہ والافضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شیء۔ (شامي : ۲؍۳۵۷)
فالجملہ في ہذا أن جنس الصدقۃ یجوز صرفہا إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیہم با الاتفاق وری عن أبي یوسف أنہ یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف۔ فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ، وفي الفتاوی العتابیۃ وکذلک یجو ز النفل للغني۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۱-۲۱۴/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)
ای مصرف الزکاۃ والعشر…(ھو فقیر وھو من لہ ادنی شیٔ)ای دون نصاب أو قدر نصاب غیرتام مستغرق فی الحاجۃ (ومسکین من لاشیٔ لہ) علی المذھب۔ (الدر المختار : ۳۳۹/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1444
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں52 تولہ
جواب دیںحذف کریںیہ پرانا تولہ ہے جو تقریباً گیارہ گرام کا ہوا کرتا تھا جو موجودہ تولہ جوکہ دس گرام کا ہوتا ہے اس حساب سے زکوٰۃ کا نصاب باسٹھ تولہ ہوگا۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم