سوال :
مفتی صاحب! تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر دعوت کرنا کیسا ہے؟ کیا اس موقع پر بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کرنے سے متعلق اسلاف کے یہاں کوئی نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے یا یہ ایک نئی چیز ہے؟ راہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : فہیم ابرہیم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی غیرمعمولی نعمت کے ملنے پر دعوت کا اہتمام کرنا جائز ہے۔ اور قرآن کریم کا حفظ تو بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا کسی بچے کے حافظِ قرآن بننے کی خوشی میں دعوت کرنا درست ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اور اس کا ثبوت قرونِ اولی بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے ملتا ہے کہ جب آپ نے سورہ بقرہ یاد کی تھی تو اس کی خوشی میں ایک اونٹ ذبح کرکے متعلقین اور غرباء کے لیے دعوت کا نظم کیا تھا۔
فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نور اللہ مرقدہ نے ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں مدلل اور نہایت حکیمانہ جواب لکھا ہے :
قرآن کریم اللہ پاک کی بہت بڑی دولت ہے۔ اس کا حفظ کرلینا بہت بڑی دولت ہے، اگر شکرانہ کے طور پر احباب ومتعارفین کو مدعو کیا جائے اورغرباء و احباب کو کھانا کھلایا جائے تو یہ اس نعمت کی قدر دانی ہے ممنوع نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک دوسروں کو بھی حفظ کا شوق عطا فرمائے اوریہ اجتماع ترغیب وتبلیغ میں معین ہوجائے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جب سورۂ بقرہ یاد کی تھی تو ایک اونٹ ذبح کرکے احباب وغرباء کو کھلایا تھا۔ اس لئے سلف صالحین میں اس کی اصل اور نظیر موجود ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے۔ ریا اور فخر کے لئے جو کام کیاجائے وہ مقبول نہیں، اور نیت کا حال خدا ہی کو معلوم ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر اس نے رسم کی صورت اختیار کرلی تو اور پریشانی ہوگی، اس لئے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخفی طور پر غرباء کو ان کی ضرورت کی اشیاء دیدی جائیں اور بچہ نے جہاں ختم کیا ہے وہاں پڑھنے والے بچوں اور ان کے اساتذہ کو شیرینی وغیرہ دیدی جائے اورمدرسہ کی امدادکردی جائے۔ (فتاوی محمودیہ : ٧/٨٠)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
بچے کے حافظ قرآن ہونے پر خوشی ومسرت میں دوست واحباب اور رشتہ داروں کو بلاکر کھانے کی دعوت کرسکتے ہیں، فی نفسہ اس میں کچھ حرج نہیں، البتہ اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
الف : صرف استطاعت کے بہ قدر لوگوں کو مدعو کریں۔
ب : غریب لوگوں کو بھی مدعو کریں، مثلاً کسی مدارس کے غریب طلبہ۔
ج : کھانے میں اسراف نہ کیا جائے۔
د : اگر عورتیں بھی مدعو ہوں تو ان کا مردوں سے الگ باپردہ انتظام کیا جائے۔
ھ : دعوت میں آنے والے حضرات سے کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول نہ کیا جائے۔
اور اگر آپ دعوت کے بجائے صرف مٹھائی تقسیم کرادیں تو یہ زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ عام طور پر لوگ طبیعت کے کچے ہوتے ہیں اور استطاعت نہ ہونے کے باوجود محض دیکھا دیکھی یا شرما حضوری وغیرہ میں اس طرح کی دعوتوں کا اہتمام والتزام شروع کردیتے ہیں، پھر اس طرح کی دعوتیں رسم بن کر مصیبت ہوجاتی ہیں۔ (رقم الفتوی : 173903)
خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ہونے کی خوشی میں دعوت کرنا اگرچہ جائز ہے۔ لیکن ہمارے یہاں گذشتہ دو تین سالوں سے جو بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور پھر اس میں تحائف بھی قبول کیے جارہے، اور مدعو حضرات بھی تحائف دینے کو ضروری سمجھ رہے ہیں، یعنی بشاشتِ قلبی کے ساتھ تحائف کا لین دین نہیں ہورہا ہے یہ سب باتیں شریعت کے مزاج کے خلاف ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے غرباء اور غیرمستطیع والدین کے بچے بھی اپنے والدین سے دعوتوں کے اہتمام کی ضد کرتے ہیں، اور پھر غیرمستطیع والدین بچوں کی خاطر یا پھر شرما حضوری میں قرض تک لے کر اس طرح کی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جو بلاشبہ درست نہیں ہے۔ لہٰذا مالداروں کے لیے بھی احتیاط اور عافیت اسی میں ہے کہ وہ دعوت طعام کا نظم ہی نہ کریں، بلکہ صرف شیرینی کی حد تک اہتمام ہو اور حافظ بننے والے طالب علم کے اساتذہ اور اس کے مدرسہ کی مالی خدمت کی جائے کہ یہ زیادہ اجر وثواب کا باعث ہوگا۔ اور اگر دعوت کرنا ہی ہوتو بالکل قریبی رشتہ دار، قریبی دوست واحباب، حافظ بننے والے طالب علم کے اساتذہ اور اس کے چند دوستوں کا انتظام کیا جائے۔
عَنْ نافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قالَ : تَعَلَّمَ عُمَرُ البَقَرَةَ فِي اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمّا خَتَمَها نَحَرَ جَزُورًا، وذَلِكَ إنّا رُوِّينا أنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطّابِ حفظ البقرة في بضع عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمّا حَفِظَها نَحَرَ جَزُورًا شُكْرًا لِلَّهِ۔ (تفسير قرطبی : ١/٤٠)
إنّ الوَلائِمَ عَشْرَةٌ مَعَ واحِدٍ … مَن عَدَّها قَدْ عَزَّ فِي أقْرانِهِ
فالخُرْسُ عِنْدَ نِفاسِها وعَقِيقَةٌ … لِلطِّفْلِ والإعْذارُ عِنْدَ خِتانِهِ
ولِحِفْظِ قُرْآنٍ وآدابٍ لَقَدْ … قالُوا الحُذّاقُ لِحِذْقِهِ وبَيانِهِ
ثُمَّ المِلاكُ لِعَقْدِهِ ووَلِيمَةٌ … فِي عُرْسِهِ فاحْرِصْ عَلى إعْلانِهِ
وكَذاكَ مَأْدُبَةٌ بِلا سَبَبٍ يُرى … ووَكِيرَةٌ لِبِنائِهِ لِمَكانِهِ
ونَقِيعَةٌ لِقُدُومِهِ ووَضِيمَةٌ … لِمُصِيبَةٍ وتَكُونُ مِن جِيرانِهِ
ولِأوَّلِ الشَّهْرِ الأصَمِّ عَتِيرَةٌ … بِذَبِيحَةٍ جاءَتْ لِرِفْعَةِ شَأْنِهِ۔ (شامی : ٦/١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 شعبان المعظم 1444
جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں