✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام! اسکول والے یعنی انتظامیہ اور ٹیچرس حضرات سے متعلق یہ بات گردش میں ہے کہ یہ لوگ دینی تعلیم میں مداخلت کررہے ہیں۔ اب اس دعوی میں کہاں تک سچائی ہے؟ اسے بھی جاننا ضروری ہے تاکہ کسی بھی طبقہ کو ایک ناکردہ جُرم کا دُکھ نہ جھیلنا پڑے۔ چنانچہ ہم اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیں گے کیا اسکول والے مکاتب کے حق میں معاون ہیں یا نقصان دہ؟
محترم قارئین! سب سے پہلے تو ہمیں اس بات پر اللہ تعالٰی کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں ایک ایسے علاقے میں پیدا کیا جہاں ہمارے لیے عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا بالکل آسان ہے۔ یہاں کی اسکولوں کا نظام الحمدللہ ایسا بنا ہوا ہے کہ بچے صبح یا دوپہر میں ڈھائی سے تین گھنٹے اور مغرب سے عشاء اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے فارغ کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے تیسری چوتھی کے بچے ناظرہ قرآن بالتجويد مکمل کرلیتے ہیں اور دسویں سے پہلے بہت سے بچے پختہ حافظ قرآن بھی بن جاتے ہیں اور ان کی عصری تعلیم میں بھی الحمدللہ کوئی خلل نہیں ہوتا۔ ورنہ ہم دیگر علاقوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں اسکولوں کا نظام ایسا بنا ہوا ہے کہ بچے جو صبح دس بجے سے اسکول جاتے ہیں تو وہی شام میں پانچ بجے کے بعد واپس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے علماء پریشان ہیں کہ ہم مکاتب کو کس طرح منظم کریں؟ ان بچوں کے پاس دو ڈھائی گھنٹے مدرسے میں دینے کے لیے نہیں ہے اور ایک دیڑھ گھنٹے میں کوئی مضبوط تعلیمی نظام نہیں بن پاتا۔ اور ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک بنا بنایا نظم دے دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے یہاں کے اسکول والوں کو مکاتب، مدارس اور دینی تعلیم کا معاون سمجھنا چاہیے اور ان کے ممنون ہونا چاہیے۔
تواتر کے ساتھ (یعنی جس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے) ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ جو بچے حفظ کررہے ہوتے ہیں یا جو بچے حافظ ہوجاتے ہیں تو ان کے ساتھ ٹیچرس اکرام کا معاملہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اسکولوں میں حفاظ کرام کا تحائف دے کر اعزاز بھی کیا گیا ہے۔ ایک اکیڈمی میں تو حفاظ کے ساتھ فیس میں بڑی رعایت بھی کی جاتی ہے۔ تو پھر اسکول والے مکاتب کے حق میں خیرخواہ ہی ہوئے نا۔ لہٰذا ہمیں بھی ان کی سراہنا اور ان کے لیے دعائے خیر کرنا چاہیے۔
بندہ ایک مکتب مدرسہ خلیفہ اول (آزاد نگر) میں آٹھ سالوں سے شعبہ حفظ کا استاذ ہے اور بندہ کے پاس شہر کی متعدد اسکولوں کے طلباء زیر تعلیم ہیں، جن میں مالیگاؤں ہائی اسکول، سوئیس، سردار، تہذیب، الفلاح، اے ٹی ٹی، جے اے ٹی، جمہور سب کے طلباء ہیں، لیکن کبھی کبھار ہی ایسا ہوا ہے کہ مدرسہ کے اوقات میں طلبا کو اسکول میں بلوایا گیا ہو۔ اورکبھی مدرسہ کے اوقات میں بلوایا بھی جاتا ہے تو دوسرے وقت میں بچوں کی چھٹی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بچے دوسرے وقت میں آجاتے ہیں۔ اب یہ مدرسہ کی انتظامیہ اور اساتذہ کا کام ہے وہ اپنے مدرسہ اور کلاس کا ماحول ایسا بناکر رکھیں کہ بچے خود بخود دوسرے وقت میں آکر اپنی غیرحاضری کی تلافی کریں۔ ورنہ بچے تو، بچے ہی ہوتے ہیں بعض مرتبہ غلط بیانی کرکے چھٹی کرلیتے ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ اسکول والے زیادتی کررہے ہیں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی اسکول سے اس طرح کی بات آتی بھی ہے تو براہ راست اس اسکول کے اساتذہ اور انتظامیہ سے اچھے انداز میں بات کرنا چاہیے، ان شاء اللہ کوئی مثبت پہلو ہی سامنے آئے گا۔ اب اس کبھی کبھار کے اور ایک دو اسکول کے معاملے کو اس طرح کہنا کہ اکثر وبیشتر ایسا ہوتا ہے، بالکل غلط ہے۔ کیونکہ اکثر وبیشتر کا مطلب یہ ہے کہ ہفتے میں اگر چھ دن مدرسہ جاری ہے تو چار دن بچے چھٹی مانگ رہے ہیں، جبکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بہت ہوا تو سال بھر میں دو سے تین مرتبہ کی بات ہوسکتی ہے۔ سال بھر میں دو تین مرتبہ تو ہم بھی مسابقات، امتحانات یا پھر حفظ کے طلباء کے ایک دن میں قرآن سنانے کی وجہ سے ان کی اسکولوں سے چھٹی لینے کے لیے کہہ دیتے ہیں، الحمدللہ اُدھر سے کبھی کوئی آبجیکشن نہیں آیا۔ لہٰذا اس ایک دو واقعات سے تمام اسکول والوں کو مجرم اور دینی تعلیم میں مداخلت کرنے والا قطعاً نہیں سمجھنا چاہیے۔
سرکاری ملازمین بالخصوص ٹیچر حضرات سے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ کنجوسی کی حد تک کفایت شعار ہوتے ہیں، لیکن ہر مشہور بات مکمل طور پر درست ہو، یہ ضروری نہیں ہے، اس میں اگرچہ کچھ سچائی بھی ہوسکتی ہے، لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمارے متعلقین اور جان پہچان میں ایسے بیسیوں ٹیچرس ہیں جو دل کھول کر مساجد، مدارس اور علماء کرام پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ کتنے ٹیچرس حضرات کی مکاتب اور مدارس کی ماہانہ بڑی بڑی رسیدیں بنی ہوئی ہے، اس بات کی گواہی خود مکاتب اور مدارس کے ذمہ داران دیں گے۔ اور کئی ٹیچرس حضرات تو باقاعدہ مکاتب کے ذمہ دار ہیں جو اپنے قیمتی اوقات کے ساتھ اپنا مال بھی مکاتب میں لگاتے ہیں، بطور مثال بتا دیں کہ خود ہمارے مدرسہ کے ناظم شہر کے ایک معیاری عصری ادارہ "جے اے ٹی" کے ایک فعال ٹیچر اشفاق لعل خان سر ہیں، جو اعلی عصری تعلیم کے ساتھ دینی مزاج اور فکرمند دل بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ اسکول والے تو دینی تعلیم میں معاون ہیں نا کہ نقصان دہ۔
یہی اسکول والے ہیں جو ماضی میں تعلیم الاسلام اور فی الحال اسلامیات اور دینیات کے امتحانات اپنی اسکولوں میں منعقد کرانے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جبکہ غالباً یہ ان کی ڈیوٹی نہیں ہوتی، بلکہ وہ خالص للہ فی اللہ یہ کام انجام دیتے ہیں، جو بلاشبہ دینی تعلیم میں معاونت ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور انہیں دعاؤں سے نوازنا چاہیے۔
کئی ٹیچرس حضرات کے بچے الحمدللہ ہمارے پاس حافظ ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔ بلکہ شہر بھر میں سینکڑوں ٹیچرس حضرات کے بچے حافظ ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں اور آئندہ بھی ان شاءاللہ ہوتے رہیں گے، تو کیا اسے بھی دینی تعلیم میں معاونت نہیں کہا جائے گا؟
خلاصہ یہ کہ ہمارے یہاں کے اسکول والے مکاتب اور مدارس کے حق میں معاون اور مفید ہیں، لہٰذا ہمیں ان کے شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کے لیے مزید نافع بننے کی دعا کرتے رہنا چاہیے، ایک دو واقعات کو بنیاد بناکر ان کی محنتوں اور تعاون کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ان کے کردار پر سوالیہ نشان لگانا چاہیے۔
اسی طرح اسکول والوں یعنی انتظامیہ اور ٹیچرس سے بھی درخواست ہے کہ وہ کسی کی باتوں سے دلبراشتہ بالکل نہ ہوں، ان کی طرف سے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں، اور دینی تعلیم میں سابقہ کوششوں اور معاونتوں سے بڑھ کر کام کرنے کا عزم کریں کہ یہ ایک بہت بڑا کارِ ثواب ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر بات کو سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر بولنے اور لکھنے اور اسے آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اس کا صرف فائدہ ہو، نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔ آمین ثم آمین
بہترین مضمون... بچوں کی چھٹی لینے کے معاملات عموماً گیدرنگ کے لیے ہوتے ہیں جو سال کے کچھ ایام ہوتے ہیں اس لیے اس تعلق اسکول انتظامیہ سے بروقت بات کر کی جا سکتی ہے..
جواب دیںحذف کریںنہایت متوازن تحریر.. آپ نے نہایت انصاف سے کام لیتے ہوئے دونوں پہلوؤں کا ایماندارنہ جائزہ پیش کیا ہے اور یہی حقیقی صورت حال بھی ہے ۔افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ایک چشم کشا تحریر لکھنے پر دلی مبارکباد ۔اللہ رب العزت آپ کے علم میں عمر میں رزق میں برکت عطا فرمائے آمین یارب العالمین
جواب دیںحذف کریںعاصی:افضال انصاری
ماشاء اللہ... بہت ہی عمدہ تحریر..... عوام کی بد گمانی کا کچھ حد تک ازالہ ہوگا.... جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںبر وقت مضمون حق ادا کیا آپ نے
جواب دیںحذف کریںبڑے ہی اچھے انداز میں آپ نے خلاصہ کیا ہے مفتی صاحب اللہ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین یارب العالمین
جواب دیںحذف کریںاس مضمون پر استاذ محترم مولانا یسین صاحب ملی کا تبصرہ 👇
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی محمد عامر صاحب.....!
آپ کی ہر تحریر بالکل مدلل اور جاندار ہوتی ہے... سامنے والا قائل ہوجاتا ہے.....
آپ کی تحریریں کسی تبصرہ کی محتاج نہیں.....
گزشتہ دنوں ایک مفتی صاحب نے اس موضوع پر لکھا اور واٹسپ پر بھیجا.. ایک نے حمایت میں تعریفی کمنٹ کردیا پھر تعریف کے پل باندھ دیے گئے... اور انھوں نے خوش ہوکر فورا اسی دن شامنامہ میں شائع کروادیا....
جس وقت لوگ کمنٹ کررہے تھے تبھی سے میرے دل پر ایک بوجھ تھا.... دل کڑھ رہا تھا کہ لوگوں کی غلط ذہن سازی کی جارہی ہے...... میں جوابا کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر کوتاہی کی وجہ سے اور کچھ تنقیدوں سے گھبرا کر ہمت نہ کرسکا اور اگر لکھتا بھی تو اتنا مدلل نہیں لکھتا جتنا آپ نے لکھا... آپ نے واقعی بہت اچھا لکھا...
اللہ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازے... اور یہ لکھ کر آپ میرے دل کا بوجھ ہلکا کردیا.... آپ کی تحریر میرے دل کی آواز ہے........
محمد یاسین ملی گولڈن نگر یاسین مسجد
ماشاءاللہ بہت خوب.... اللہ پاک آپ کے علم میں اضافہ کرے آمین
حذف کریںآپ کے یہاں اسکولوں کا نظام کیا اور کیسا ہے تفصیلات بتائے تو مہربانی ہوگی
جواب دیںحذف کریںیقینا ہمارے علاقے میں یہ مکاتب کے وقت کے لیے دشواری آتی ہے
اس نمبر بتائیے
واٹس ایپ نمبر 8698933769
صبح کی شفٹ ساڑے سات سے ساڑھے بارہ
حذف کریںدوپہر کی شفٹ ساڑھے بارہ سے پانچ بجے کے آس پاس ہوتی ہے۔
ماشاء اللہ ...اسکولی ٹیچرس کے تعلق سے جو غلط فہمیاں مدارس میں پروان چڑھ رہی تھیں آپ نے انہیں خارج کر دیا ...بہترین تحریر
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ آپکو بہترین جزاء خیر عطا فرمائے آمین
ماشآءاللہ
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
آپ نے بہت ہی عمدہ تحریر کی ہے
ماشاء اللہ بغیر کسی جذباتی یا غیر تحقیقی پہلو کے مطمئن کردینے والی تحریر- اللھم زد فزد
جواب دیںحذف کریں