سوال :
محترم مفتی صاحب! سوشل میڈیا پر بہت دیکھنے میں آتا ہےکہ اذان کے وقت بات کرنے سے تین سال کی عبادت ضائع ہوجاتی ہے؟ اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اذان کے وقت بات کرنے سے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : محمد اسلم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان کا جواب دینا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں۔ یعنی اگر کوئی اذان کا جواب نہ دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اور جب اذان کا جواب نہ دینا کوئی گناہ کی بات نہیں تو اس پر اپنی طرف سے ایسی سخت وعید بیان کرنا جیسا کہ سوال نامہ میں ہے تو یہ دین میں اضافہ کرنا ہے۔ ایسی بے بنیاد اور من گھڑت باتیں بیان کرنا اور اسے شیئر کرنا ناجائز اور گناہ ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن چونکہ اذان کا جواب دینا بڑا اجر وثواب اور فضیلت والا عمل ہے۔ نیز اذان کے دوران بات کرتے ہوئے بھی اذان کا جواب دینا ممکن ہے، لہٰذا اذان کا جواب دینا چاہیے۔
سَمِعَ الْأَذَانَ وَهُوَ يَمْشِي فَالْأَوْلَى أَنْ يَقِفَ سَاعَةً وَيُجِيبَ. كَذَا فِي الْقُنْيَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٧)
إجَابَةُ الْمُؤَذِّنِ فَضِيلَةٌ وَإِنْ تَرَكَهَا لَا يَأْثَمُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «مِنْ لَمْ يُجِبْ الْأَذَانَ فَلَا صَلَاةَ لَهُ» فَمَعْنَاهُ الْإِجَابَةُ بِالْقَدَمِ لَا بِاللِّسَانِ فَقَطْ۔ (البحر الرائق : ١/٢٧٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رجب المرجب 1444
السلام و علیکم
جواب دیںحذف کریں