منگل، 14 فروری، 2023

خودکشی پر عذاب اور اس کی بخشش؟

سوال :

مفتی صاحب! خودکشی کرنے والے کو کیا عذاب ہوگا؟ اور اگر ایک انسان خود کشی کرلے تو کیا اس کی بخشش ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں نوازش ہو گی۔
(المستفتی : ماسٹر جمیل، دھولیہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خود کشی اکبر الکبائر میں سے ہے، احادیث میں خود کشی کرنے والے کے متعلق دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو درج ذیل ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمايا : جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پیتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہوگا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا تو جب تک جہنم میں رہے گا اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس گناہ کی سنگینی کی وجہ سے فقہاء کرام نے بڑے اور با اثر علماء کو ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو تنبیہ ہو اور وہ اس سے عبرت حاصل کرکے اس گناہِ عظیم سے باز رہیں۔ تاہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا، لہٰذا اس کے انتقال کی خبر سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا جائے گا۔ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لیے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب بھی کیا جائے گا جیسے دیگر مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے، بلکہ ایسے شخص کے لیے دعائے مغفرت کی زیادہ ضرورت ہے۔ جس طرح دیگر معاصی اور گناہ کے کام حرام ہیں اسی طرح خودکشی بھی حرام ہے، جس طرح دوسرے گناہوں پر مؤاخذہ ہے اسی طرح خود کشی پر بھی ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص اپنے کئے کی سزا پا لینے کے بعد جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ اس لئے کہ اہلِ سنت والجماعت کا متفقہ مسلک یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اس وقت تک دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا جب تک اس گناہ کبیرہ کو حلال نہ سمجھے جس کی حرمت نصِّ قطعی سے ثابت ہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ۔ (سورۃ النساء : ۱۱۶)

اعلم إن الروایات قد صحت أن أہل التوحید یعذبون، ثم یخرجون منہا ولا یخلدون۔ (فتح الملہم، اشرفیہ دیوبند ۱/۲۲۵)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، يَتَرَدَّى فِيهِ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَحَسَّى سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسَمُّهُ فِي يَدِهِ، يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ، يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٧٨)

(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ) وَلَوْ (عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ) بِهِ يُفْتَى وَإِنْ كَانَ أَعْظَمَ وِزْرًا مِنْ قَاتِلِ غَيْرِهِ. (وقال ابن عابدین) (قَوْلُهُ بِهِ يُفْتَى) لِأَنَّهُ فَاسِقٌ غَيْرُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ، وَإِنْ كَانَ بَاغِيًا عَلَى نَفْسِهِ كَسَائِرِ فُسَّاقِ الْمُسْلِمِينَ۔ (شامی : ٢/٢١١)

ان الکبیرة التی ھی غیرالکفر لاتخرج العبدالمومن من الایمان لبقاء التصدیق الذی ھو حقیقة الایمان۔ (شرح العقائد : ١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رجب المرجب 1444

1 تبصرہ: