پیر، 13 فروری، 2023

کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی چوٹی باندھی ہے؟

سوال :

مفتی صاحب کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بالوں کو اکھٹا کرکے باندھا ہے، چوٹی کی طرح اور کیا چوٹی کا لفظ حضور کی نسبت کے ساتھ استعمال کرنا مناسب ہے؟ دراصل ایک ویڈیو میں دیکھنے میں آیا کہ وہ بتا رہے تھے حضور سے ایسا ثابت ہے۔
(المستفتی : شارق انور، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیثِ مبارکہ میں مردوں کے سر کے بالوں کے لیے درج ذیل تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔

۱) جُمّہ : مونڈھوں تک

۲) وَفْرَہْ : کانوں کی نرمی تک

۳) لِمَّہْ : دونوں کے درمیان تک

احوال واوقات کے اختلاف کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالِ مبارک تینوں قسم کے ہوتے تھے۔ لیکن مردوں کے لیے اس طرح بال بڑھانا کہ عورتوں سے مشابہت ہوجائے یا  لڑکیوں کے مشابہ بالوں کی چوٹی بنانا جائز نہیں۔ اس لیے کہ حدیث شریف میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے۔

سوال نامہ میں جس ویڈیو کے بارے میں کہا گیا ہے اسے دیکھا گیا ہے اس میں جس حدیث شریف کا حوالہ دیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے :

حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور آپ ﷺ کی چار گچھیاں تھیں بالوں کی۔ (یعنی چار حصوں میں بالوں کو تقسیم کر کے ہر حصہ کو باندھ دیا تھا۔)۔ (ابوداؤد)

ذکر کردہ روایت درست ہے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بالِ مبارک اسے طرح بندھے ہوئے تھے جس طرح عورتوں کی چوٹی ہوتی ہے یا بڑے بالوں والے فساق فجار کی چوٹیاں بندھی ہوتی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر کی وجہ سے اپنے بڑے بالوں کو اُس وقت کے عرب کے مخصوص انداز میں چار حصوں میں باندھ لیا تھا، لہٰذا اسے موجودہ دور کی عورتوں کی چوٹی بالکل بھی نہیں کہا جائے گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٨٨٥)

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی مَکَّةَ وَلَهُ أَرْبَعُ غَدَائِرَ تَعْنِي عَقَائِصَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤١٩١)

ويكره أن يصلي وهو عاقص شعره والعاقص هو الإحكام والشد، والمراد من المسألة عند بعض المشايخ أن يجمع شعره على هامته، ويشده بصمغ أو غيره، ليتلبد، وعند بعضهم أن يلف ذوائبه حول رأسه كما تفعله النساء في بعض الأوقات وعند بعضهم أن يجمع الشعر كله من قبل القفاء ويمسكه بخيط خرقة كيلا يصيب الأرض إذا سجد۔ (الفتاویٰ التاتارخایۃ : ١/٥٦١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 رجب المرجب 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں