سوال :
مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ شریعت میں اللہ تعالیٰ نے بہنوں کا حصہ کم اور بھائیوں کا زیادہ کیوں رکھا ہے؟ جبکہ بہنیں زیادہ مستحق و حقدار ہوتی ہیں، وہ بھی تو اسی ماں باپ کی اولاد ہوتی ہیں، تو ان کو حصہ کم کیوں؟ جبکہ بیچاریوں کو گھر اچھا ملا تو ٹھیک ورنہ ساری زندگی روتے کٹتی ہے۔ اس کا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہم سب کو ہمیشہ اس بات کا استحضار اور خیال رہنا چاہیے کہ جس طرح اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح وہ ہماری ہر ضرورت کو بھی اچھی طرح جانتا ہے، اور اس نے جو قانونِ شریعت ہمیں عطا فرمایا اس میں ہم سب کے لیے سراسر خیرخواہی ہے اس میں کہیں بھی کسی کے لیے بھی کوئی نا انصافی کا کوئی ادنی سا پہلو یا ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہے۔ اس تمہید کے بات ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ خود اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْن۔
ترجمہ : اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔
اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ حکم دیا ہے کہ بیٹیوں کا حصہ بیٹوں کی بہ نسبت آدھا ہے تو پھر ایک ایمان والے کے لیے اس میں کوئی چوں چرا کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ لہٰذا ہمیں اس حکم کو اس کی حکمت اور مصلحت جانے بغیر بھی دل سے قبول کرنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ حکم کسی حکمت اور مصلحت سے خالی ہے، بلکہ یہ حکم بھی حکمتوں اور مصلحتوں سے بھرا ہوا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کا وراثت میں حصہ اس کی جنس کو کم تر سمجھ کر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ اس کی ایک اہم حکمت عورت اور مرد کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم ہے۔ مردوں کو دوہرا حصہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے ذمہ خرچہ نفقہ ہے اور عورت کے ذمہ کسی قسم کا کوئی نفقہ خرچہ نہیں۔ عورت کو جو کچھ ملتا ہے وہ صرف اور صرف اس کا ذاتی جیب خرچ ہے۔
مثال کے طور پر ایک آدمی کا انتقال ہوا، اس کا ترکہ دیڑھ لاکھ روپے ہے اور اس کے وارثین میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، لہٰذا بیٹے کو ترکہ میں ایک لاکھ اور بیٹی کو پچاس ہزار ملا۔ اب ان دونوں کی شادی ہوتی ہے، شادی میں بیٹے کو اپنی بیوی کو دس ہزار مہر دینا پڑتا ہے، لیکن بیٹی کو مہر میں دس ہزار ملتا ہے۔ بیٹے پر اس کی بیوی کے سارے اخراجات (مکان، کھانا، کپڑا دوا علاج) کا پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے، جبکہ بہن کے سارے اخراجات اس کے شوہر کے ذمہ ہوں گے، اور یہ ساٹھ ہزار گویا اس کا جیب خرچ ہوگیا۔ اب آپ خود غور فرمائیں اس میں بیٹا فائدے میں ہے یا بیٹی؟
اس مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھ لیں کہ خاتون جب تک نابالغ ہو، اس کا نفقہ خرچہ باپ، دادا، چچا، بھائی وغیرہ یا ان میں سے کوئی نہ ہو تو بیت المال کے ذمہ ہے۔ جب وہ بالغ ہوجائے اور اس کا نکاح ہوجائے، تو اس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہوجاتے ہیں، نکاح کے موقع پر اسے جو حق مہر ملتا ہے، وہ بھی خالص اس کا جیب خرچ ہوتا ہے۔ باپ کی وفات پر اسے اپنے بھائیوں کی بہ نسبت جو نصف جائیداد ملتی ہے وہ بھی اس کی ذاتی ملکیت اور جیب خرچ ہوگی۔
اگر اولاد ہوجائے اور شوہر کا انتقال ہوجائے تو شوہر کی جائیداد سے ملنے والا آٹھواں حصہ بھی اس کی ذاتی ملکیت اور جیب خرچ ہی ہوگا۔
اسی طرح اگر کل کلاں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہوجائے تو ان کی جائیداد میں سے ملنے والا چھٹا حصہ بھی اس کی جیب ہی میں جائے گا۔
اسلام نے عورت کو خرچ کرنے کا کہیں بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ عورت ملازمت یا کسی کاروبار کی صورت میں کما رہی ہے تو وہ اگر اپنی مرضی سے شوہر کو اپنی کمائی میں سے کچھ دینا چاہے، اپنے بچّوں پر کچھ خرچ کرنا چاہے، یا گھر میں استعمال کرنا چاہے، تو یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے، ان جگہوں پر خرچ کرنا اس کی قانونی ذمہ داری اور اس پر لازم نہیں۔ عورت اپنی کمائی کی مختارِ کُل ہے اور اس پر شوہر، بچوں یا خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کی کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ سب باپ کے ذمے ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو شادی کرنے، مکان خریدنے، گھر کا تمام خرچ ادا کرنے، بیوی اور بچوں کا نان نفقہ، بیوی اور بچوں کے کپڑوں، ان کی تعلیم، نوکروں کی تنخواہوں اور گھر کے دوسرے تمام اخراجات کا ذمہ دار بھی صرف مر د ہی ہے اور عورت پر ان میں سے کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ مطالبہ کرے تو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے شوہر کو نوکر بھی رکھنا پڑے گا (بشرطیکہ وہ اخراجات اُٹھا سکتا ہو)۔
طلاق کی صورت میں بھی عدّت کے ایام میں عورت کے اخراجات کی ذمہ داری اسلام شوہر پر ڈالتا ہے اور عدت ختم ہوتے ہی عورت کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے۔ بیوی کو باپ کے گھر لے جانا اور اس کے اخراجات برداشت کرنا بھی شوہر کے ذمے ہے۔ ان اخراجات کے علاوہ مختلف قسم کے معاشی اور معاشرتی اُمور کا سامنا کرنا، تقریبات، جنازے، شادیاں، صلح وغیرہ اور بے شمار دیگر امورسر انجام دینا بھی مرد کی ذمہ داری ہے اور ان سے متعلق تمام اخراجات بھی اسی کے ذمے ہیں۔
عورت کے مال اور کمائی پر تو قانونی حق صرف اسی کا ہے، جبکہ مرد کے مال اور کمائی میں خاندان کے کئی افراد کا نہ صرف حق ہے بلکہ مرد پر اس کی ادائیگی فرض ہے۔ عورت اگر بیٹی ہے تو معاشی ذمہ داری باپ کی، بہن ہے تو بھائی کی، دونوں میں سے کوئی نہیں تو قریب ترین مردوں (مثلاً چچا وغیرہ )کی، ماں ہے تو بیٹوں کی، اور بیوی ہے تو شوہر پر اس کے نان ونفقہ اور رہائش کی ذمہ داری ہے۔
ذمہ داریوں کی اس تقسیم کو جاننے کے بعد ایک معمولی عقل اور سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وراثت میں عورت کے مقابلے میں مرد کا حصہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے؟ ایک طرف اسلام نے عورت پر یہ احسان کیا ہے کہ اس پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی دوسری طرف اس کے لیے نہ صرف وراثت میں حصہ مقرر کیا، بلکہ اس کے لیے سرمایے کے حصول اور اس کے تحفظ کے کئی ذرائع متعین کیے اور اسے اپنے اس ’محفوظ سرمایے‘ کے استعمال میں پورے طور پر خود مختار بھی بنا دیا۔ حتیٰ کہ اس کے شوہر پر بھی یہ پابندی لگا دی کہ وہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا سرمایہ استعمال نہیں کر سکتا، جبکہ بیوی ضرورت کے مطابق شوہر کے مال سے خرچ کر نے کی مجاز ہے۔ اگر مردوں اور عورتوں کی معاشی، معاشرتی اور دوسری ذمہ داریوں اور پوری صورت حال کو سامنے رکھیں تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص ذمہ داریوں کی وجہ سے انتظامی بنیاد پر ہے اور وراثت کی یہ تقسیم عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ (مستفاد :مضمون الحاد ڈاٹ کام)
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کو تسلی اور تشفی ہوگئی ہوگی کہ بیٹی کا حصہ بیٹوں کی بہ نسبت آدھا کیوں ہے؟ رہ گیا یہ مسئلہ کہ "اگر بیٹیوں کو اچھا گھر نہیں ملا تو ساری زندگی روتے ہوئے کٹتی ہے" تو یہ معاذ اللہ شریعت کا نقص اور کمی تو نہیں ہے۔ بلکہ یہ مسئلہ شریعت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر شوہر اپنی بیوی کے حقوق کو پورے طور پر ادا کرے جو شریعت نے اس پر لاگو کیے ہیں تو کیونکر اس کی زندگی روتے ہوئے گذرے گی؟ اور اگر خدانخواستہ شوہر اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو بھائیوں کو اگر اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے وہ اپنی بہن کی مالی مدد کردیا کریں۔ اس صورت میں بھائیوں کو دوہرا اجر ملے گا، نیز اگر والد کے ترکہ کی بات آئے اور اگر کسی بہن کی مالی حالت زیادہ خراب ہو اور بھائیوں کی حالت اچھی ہوتو وہ اپنے حصہ سے جتنا چاہیں بہن کو دے سکتے ہیں، اس میں تو کوئی شرعی پابندی نہیں ہے۔
خلاصہ یہی ہے کہ سارے مسائل شریعت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں، اگر ہر کوئی شریعت پر عمل کرنے لگے تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہو اور نہ ہی کسی کو کسی شرعی مسئلہ میں تنگی کا احساس ہو۔
قال اللہُ تعالیٰ : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ١١)
وَإِذَا اخْتَلَطَ الْبَنُونَ وَالْبَنَاتُ عَصَبَ الْبَنُونَ الْبَنَاتِ فَيَكُونُ لِلِابْنِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٦/٤٤٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رجب المرجب 1444
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںنہایت ہی بہترین انداز میں مسئلے کو سمجھایا گیا ہے
ما شا اللہ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
حذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںآپ نے بہت ہی خوبصورت اور سہل انداز میں ترکے کی ترجمانی فرمائی.
ﷲ پاک آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور نظرِ بد سے حفاظت فرمائے.
آمین یا رب العالمین
ماشاء اللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ جامع و مانع گفتگو۔۔۔
جواب دیںحذف کریں