سوال :
مفتی صاحب نماز میں قومہ سے سجدہ میں جانے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ تم سجدہ میں جانے کے لیے اونٹ کی طرح نہ بیٹھا کرو۔ (کہ جس طرح اونٹ بیٹھتے ہوئے پہلے گھنٹے زمین پر رکھتا ہے) تو کیا ہمارا طریقہ خلاف سنت ہے؟ سجدے میں جانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کیا تھا؟ اس پر روشنی ڈال دیں۔
(المستفتی : فہد سردار، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ذخیرہ احادیث میں اس مسئلے پر دو طرح کی روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت تو وہی ہے جو سوال نامہ میں مذکور ہے اور یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جبکہ دوسری روایت جو احناف، شوافع اور حنابلہ کا مستدل ہے وہ درج ذیل ہے :
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تھے تو ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے تھے ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے اٹھتے تھے تو اس کے برعکس اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دونوں قسم کی روایت ملتی ہے، ایک روایت میں ہے کہ گھٹنوں کو ہاتھ سے پہلے رکھنا چاہیے۔ اب ان دونوں روایتوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کے لیے دوسرے صحابہ کی روایت کی تلاش کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وائل ابن حجر کی درج بالا روایت ہم کو مل گئی اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ اب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جس میں پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے کا ذکر ہے قابل استدلال نہیں رہی۔ حضرت عمر کا فعل دوسرا مستدل ہے حضرت علقمہ اور حضرت اسود سے نقل کیا گیا ہے۔ جلیل القدر صحابہ اجلہ تابعین پہلے اپنے گھٹنوں کو پھر ہاتھ کو زمین پر رکھتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
علامہ خطابی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے مقابلہ میں حضرت وائل بن حجر کی روایت زیادہ صحیح اور اَثبت ہے، حضرت (وائل رضی اللہ عنہ) کی حدیث اس سے ایک دو حدیث پہلے آئی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں : قال : رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں جاتے تو پہلے اپنے دونوں گھٹنوں کو رکھتے اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھتے۔ یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، بعض حضرات نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو منسوخ بھی مانا ہے۔ اور دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بوڑھے اور کمزوروں کے لیے ہے اور حضرت وائل کی حدیث جوان اور طاقتور کے لیے ہے۔ (رقم الفتوی : 41357)
اسی طرح جن علمائے کرام نے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنے کا موقف اپنایا ہے، ان میں علامہ ابن تیمیہ، اور انکے شاگرد رشید ابن قیم، شیخ عبد العزیز بن باز، اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہم اللہ ہیں۔
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کو مسئلہ ھذا میں تشفی ہوگئی ہوگی کہ ہم احناف کا جس پر عمل ہے وہ مسنون طریقہ ہے اور اسے ہی ائمہ وعلماء کی اکثریت نے راجح قرار دیا ہے۔
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٦٨)
"و" يسن "وضع ركبتيه" ابتداء على الأرض "ثم يديه ثم وجهه" عند نزوله "للسجود" ويسجد بينهما۔ (حاشیة الطحطاوی علی المراقی : ٢٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الآخر 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں