سوال :
مفتی صاحب خیبر کا جو واقعہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے ایک ہاتھ سےقلعہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس کی تحقیق مطلوب ہے تاکہ اس کی حقیقت عوام کے سامنے آجائے۔
(المستفتی : حافظ عرفات، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں مختلف الفاظ کے ساتھ یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تنہا غزوہ خیبر کے موقع پر خیبر کے قلعہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہاں ہم مسند احمد کی روایت نقل کرتے ہیں۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے (غزوہ خیبر کے موقع پر) جب علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ نکلے تھے جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کے لوگ باہر آئے اور لڑائی شروع ہوگئی ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال ان کے ہاتھ سے گر گئی تھی انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا اور دوران قتال وہ مستقل ان کے ہاتھ میں رہا حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فتح عطا فرما دی اور جنگ سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں کی ایک جماعت نے "جن کے ساتھ آٹھواں میں بھی تھا" اس دروازے کو ہلانے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ہم اسے ہلا نہیں سکے۔
مذکورہ بالا روایت سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کا متابع اور شاہد موجود ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو تقویت مل جاتی ہے اور سند میں موجود ضعف کم ہوجاتا ہے، اور چونکہ اس روایت کا تعلق مناقب سے ہے اور فضائل و مناقب کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہوتی ہے۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہے اور یہ مشہور واقعہ ہے، اور اس کا واقع ہونا مستبعد نہیں ہے، اگر اس کی صحت ثابت ہو جائے اور اگر اس کی کوئی اصل ہے، تو یہ عقائد اہلِ سنت کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ اہلِ سنت کے عقائد و علمِ کلام میں آتا ہے ’’اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور حق ہے۔ (المرتضی : ٨١)
خلاصہ یہ کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیبر کے قلعہ کا بھاری بھرکم دروازہ اکھاڑ پھینکنا آپ رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَنٍ عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ حِينَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ بِرَايَتِهِ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْحِصْنِ خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فَقَاتَلَهُمْ فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُودَ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ بَابًا كَانَ عِنْدَ الْحِصْنِ فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ فَلَمْ يَزَلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدِهِ حِينَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ نَجْهَدُ عَلَى أَنْ نَقْلِبَ ذَلِكَ الْبَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٣٨٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 رجب المرجب 1444
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںصرف اُکھاڑ پھینکا ہی نہیں بلکہ جنگ کے دوران اُسے بطورِ ڈھال استعمال کرتے رہے۔ اللّٰہ اکبر
جواب دیںحذف کریں