منگل، 3 جنوری، 2023

والد سے زیادہ دوست یا سیاسی لیڈر کو اہمیت دینا

سوال :

مفتی صاحب آج کل مالیگاؤں میں کچھ افراد اپنے والد سے زیادہ دوسرے افراد مثلاً دوست اور سیاسی لیڈران کو اپنے والد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ احادیث کی روشنی میں رہنمائی کریں کیا اپنے والد سے زیادہ کسی کو اہمیت دی جاسکتی ہے؟
(المستفتی : انصاری عارف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : والد کا مقام ومرتبہ بہت بڑھا ہوا ہے۔ قرآن و حدیث میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم وارد ہوا ہے، یہاں تک کہ انہیں اُف تک کہنے یعنی ناگواری کے اظہار کے لیے معمولی سے معمولی لفظ بھی استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ آدمی پر اس کی والدہ کے بعد سب سے زیادہ حق اس کے والد کا ہے۔ لہٰذا والد پر کسی اور کو مثلاً دوست یا کسی سیاسی لیڈر کو اہمیت دینا قطعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے اور اس پر حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غنیمت کو بنایا جانے لگے ذاتی دولت اور امانت کو مال غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان اور علم حاصل کیا جانے لگے دین کے علاوہ (دنیوی) دوسری اغراض کیلئے اور لوگ فرمابرداری کریں اپنی بیوی کی اور نافرمانی کریں اپنی ماں کی اور اپنے سے لگائیں دوستوں کو اور دور کریں باپ کو اور بلند ہو آوازیں مسجدوں میں اور قبیلہ کی سرداری کرے ان میں کا فسق اور قوم کا لیڈر ایسا شخص ہو جو ان میں سب سے کمینہ ہوں اور جب کسی آدمی کا اکرام کیا جائے اس کے شر کے ڈر سے اور (پیشہ ور) گانے والیاں اور باجے گاجے عام ہوں اور شرابیں پی جائیں اور امت کے بعد والے اس کے اگلوں پر لعنت کریں تو اس وقت انتظار کرو سرخ آندھیوں کا اور زلزلوں کا اور زمین میں دھنسائے جانے کا اور صورتیں مسخ کئے جانے کا اور پتھر برسنے کا اور (ان کے علاوہ اس طرح کی) اور نشانیوں کا جو پے در پے اس طرح آئیں گی جس طرح ایک ہار ہو کاٹ دیا گیا ہو اس کا دھاگا تو پے در پے گریں اس کے دانے۔

دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کرنے "  کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور اس کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ مجلس بازی کرنے، ان کے ساتھ گپ شپ اور سیر و تفریح کرنے میں صرف کرے اور اپنے معمولات وحرکات سے ایسا ظاہر کرے کہ اس کو باپ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ تعلق وموانست ہے۔ سیاسی لیڈر کا معاملہ تو دوست سے زیادہ گیا گزرا ہے۔ اس لیے کہ سیاسی لیڈران کے پیچھے لگ کر اور ان کے ہر غلط سلط کاموں کی حمایت کرکے بندہ آدمی اپنی آخرت تو برباد کرتا ہی ہے، اس کے ساتھ دنیا بھی برباد ہوتی ہے، اور آج کل دوستوں سے زیادہ لوگ سیاسی لیڈران کے ساتھ ہی لگے ہوئے ہیں، گھر پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ اپنے لیڈر کی چاپلوسی اور خوشامد کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے والد کی فکر نہیں ہوتی ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ کیا کھائے؟ بیمار ہیں تو ان کی دوا آئی کہ نہیں؟ لیکن اپنے لیڈر کی ہر حرکت کی انہیں اطلاع ہوتی ہے۔ جس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے والد سے زیادہ سیاسی لیڈر کو اہمیت دے رہے ہیں، اسی عمل پر مذکورہ حدیث شریف میں وعید آئی ہوئی ہے، لہٰذا ہر اس طرز عمل سے بچنا ضروری ہے جس سے واضح ہو کہ بندہ اپنے والد سے زیادہ دوست یا کسی سیاسی لیڈر کو اہمیت دے رہا ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْ لًاکَرِیْمًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل، آیت : ۲۱)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا اتُّخِذَ الْفَيْءُ دُوَلاً وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّينِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ وَأَدْنَى صَدِيقَهُ وَأَقْصَى أَبَاهُ وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ وَسَادَ الْقَبِيلَةَ فَاسِقُهُمْ وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُهُ فَتَتَابَعَ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٢١١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الآخر 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں