سوال :
مفتی صاحب! کسی کے گھر میت ہوجائے یا کوئی پریشانی ہوتو سورہ یس کا نصاب کیا جاتا ہے اور اکتالیس مرتبہ اگر سورہ یس پڑھی گئی تو اسے ایک نصاب کہا جاتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ اکتالیس مرتبہ پڑھنے کی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلاشبہ پورا قرآن مجید خیر وبرکت کا منبع ہے۔ لہٰذا اس کے کسی بھی حصے کی تلاوت سراسر خیر و برکت کا باعث ہی بنے گی۔ اور اس کی اہم سورۃ سورہ یٰسین کے متعدد فضائل احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں، جو درج ذیل ہیں :
ترمذی شریف میں ہے :
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورت یٰسین ہے۔ جو اسے ایک مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا اجر لکھ دیتا ہے۔
سنن دارمی میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے بے شک اللہ نے آسمانوں اور زمین کے پیداکرنے سے ایک ہزار سال پہلے سورت طہ اور سورت یسین کو پڑھا تھا جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا وہ امت کتنی خوش نصیب ہے جس پر یہ نازل ہوگی اور وہ ذہن کتنے خوش نصیب ہیں جن میں یہ سمائیں گی اور وہ زبانیں کتنی خوش نصیب ہوں گی جو انہیں پڑھیں گی۔
سنن دارمی میں ہے :
عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں مجھے یہ پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص دن کے آغاز میں سورت یسین پڑھے گا اس کی اس دن کی تمام ضروریات پوری ہو جائیں گے۔
لہٰذا سورہ یٰسین کی تلاوت کی جائے تو بھی بہت سی خیر و برکات حاصل ہوں گی۔ لیکن باقاعدہ اکتالیس مرتبہ سورہ یٰسین یا اور کوئی سورۃ پڑھنا حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اکتالیس مرتبہ کسی سورۃ کے پڑھنے کو نصاب کہا گیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اکتالیس مرتبہ سورۃ یٰسین کی تلاوت سنت سمجھ کر کرتا ہے، تو یہ بدعت کہلائے گا، لیکن اگر اسے ضروری یا سنت نہ سمجھتے ہوئے پڑھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم بالترتیب مکمل قرآن مجید پڑھنے کا معمول ہونا چاہیے، کیونکہ عموماً یہ سننے اور دیکھنے میں آتا ہے کہ عوام بالخصوص خواتین کی ایک بڑی تعداد کسی کے انتقال یا بیماری وغیرہ کے موقع پر سورہ یٰسین کا نصاب یعنی اکتالیس مرتبہ سورہ یٰسین پڑھنے پر ہی اکتفا کرتی ہے جو بلاشبہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّبِّيُ ﷺ :إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ قَلْبًا، وَقَلْبُ القُرْآنِ یٰس، وَمَنْ قَرَأَ یٰس کَتَبَ اللهُ لَهُ بِقِرَاءَتِهَا قِرَاءةَ القُرْآنِ عَشْرَ مَرَّاتٍ۔ (سنن الترمذی، رقم ٢٨٨٧)
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ الله ﷺ :إِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَرَأَ طٰهٰ وَیٰس قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِکَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ : طُوبٰی لِأُمَّةٍ یَنْزِلُ هٰذَا عَلَیْهَا، وَطُوبٰی لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هٰذَا، وَطُوبٰی لِأَلْسِنَةٍ تَتَکَلَّمُ بِهٰذَا۔ (سنن الدارمی، رقم : ٣٤٥٧)
عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ : بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ قَرَأَ یٰس فِي صَدْرِالنَّهَارِ، قُضِیَتْ حَوَائجُهُ۔ (سنن الدارمی، رقم : ٣٤٦٢)
عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الاول 1444
مفتی صاحب تدفین کے بعد قران خوانی کروانی چاہیے کہ نہیں اور نہیں کروانی چاہیے تو کیوں❓
جواب دیںحذف کریں